اسلام آباد (اے پی پی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ ماضی میں جنگیں طاقت کے زور پر لڑی جاتی تھیں، اب رائے عامہ کی جنگ لڑی جاتی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 70 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں لیکن آج تک اس پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی، میڈیا کا منظر نامہ کافی حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے، آج ڈیجیٹل میڈیا ایڈورٹائزمنٹ 25 ارب روپے
تک پہنچ گئی ہے، فیس بک اور گوگل نے پاکستان سے 7.5 ارب روپے کے اشتہارات کا بزنس کیا، رجحان بدل رہا ہے، وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ میڈیا کی ترقی کےلیے پہلی مرتبہ میڈیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنائی جارہی ہے، جس میں اینی میشن، ویژول افیکٹس اور فلم سازی اور کیمرہ ورک سمیت میڈیا کے مختلف شعبوں کی تعلیم دی جائے گی، ساتھ ہی میڈیا میں 1500 انٹرن شپس دی جائیں گی۔میڈیا میں ٹیکنالوجی کے خلل کی وجہ سے بعض جگہوں پر ملازمتیں ختم ہوئیں اور کچھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں، ہمیں اپنا نکتہ نظر دنیا کے سامنے پیش کرنے اور میڈیا میں ترقی کے لئے ڈیجیٹل میڈیا پر توجہ دینا ہوگی، ملک میں موجود 42 جرنلزم سکولز میں 1960ءکا نصاب پڑھایا جا رہا ہے جبکہ بیرون دنیا میں لائٹس اور سائونڈز میں لوگوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، ہمارے پاس دور دور تک ایسے لوگ میسر نہیں،میڈیا کی ترقی کے لئے پہلی مرتبہ میڈیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنائی جا رہی ہے، میڈیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں اینی میشن، ویژوئل ایفیکٹس، فلم سازی، کیمرہ ورک سمیت میڈیا کے مختلف شعبوں کے بارے میں تعلیم دی جائے گی،میڈیا میں 1500 انٹرن شپس دی جائیں گی، پی ٹی وی کو ایچ ڈی اور ریڈیو کی نشریات انٹرنیٹ پر منتقل کر دی گئی ہیں، کیبل آپریٹرز کے لئے ڈیجیٹل کیبل پالیسی منظوری کی گئی، کیبل آپریٹرز کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت قرضے دیئے جائیں گے تاکہ وہ اپنے صارفین کو ڈیجیٹل کیبل فراہم کر سکیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی نیشنل میڈیا ورکشاپ کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ میڈیا کے مختلف طریقوں کے درمیان فرق ختم ہو چکا ہے،آج ٹی وی اور اخبار کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے، اب موبائل فون ہی ہمارا اخبار، سوشل میڈیا اور فلم کا ذریعہ ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پیمرا کے پاس جرمانہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد دس لاکھ روپے ہے، موجودہ دور میں بالخصوص بڑے اداروں کے لئے یہ جرمانہ نہ ہونے کے برابر ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ سی این این امریکا کا سب سے بڑا ٹی وی چینل ہو اور وہی سب سے بڑا اخبار بھی چلا رہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کچھ ایسے ادارے ہیں جنہوں نے میڈیا کے چینلز تشکیل دیئے لیکن حقیقت میں ان کا کاروبار کوئی اور ہے۔ میڈیا اداروں میں سیٹھ کے کردار کی وجہ سے جس منظم میڈیا کو آگے جانا چاہئے تھا وہ نہیں جا سکا۔چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اس وقت تقریباً سات ایسے چینلز ہیں جو غیر قانونی ہیں، ان چینلز نے تفریحی چینل یا ایجوکیشن چینل کا لائسنس حاصل کیا اور وہ نیوز چینل چلا رہے ہیں جبکہ ان چینلز نے عدالتوں سے حکم امتناعی بھی حاصل کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ریگولیشن فریم ورک کو مضبوط کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں نے 2018ءمیں کہا تھا کہ چینلز کو ڈیجیٹل نہ کیا گیا تو اس سے میڈیا کی صنعت میں بحران پیدا ہوگا۔ اس وقت ایف بی آر کو خط لکھ کر کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا ایڈورٹائزمنٹ چار ارب روپے ہے، آئندہ پانچ سالوں میں یہ 12 ارب سے 16 ارب روپے تک پہنچ جائے گی،اس کے لئے ریگولیشنز ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ڈیجیٹل میڈیا ایڈورٹائزمنٹ 25 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ فیس بک اور گوگل نے پاکستان سے 7.5 بلین روپے کے اشتہارات لئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رجحان تبدیل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کا سائز بھی بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک نجی اخبار نے 15 دفاتر ختم کر کے کراچی میں ایک ہیڈ آفس قائم کیا اور سولہ دفاتر کا کام اس ایک دفتر سے ہونے لگا۔چوہدری فواد حسین نے کہا کہ
ٹیکنالوجی نے میڈیا میں خلل تو ڈالا ہے لیکن دوسری جانب سینکڑوں لوگوں کے لئے ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں، لوگوں نے یو ٹیوب اور ویب سائٹس پر روزگار حاصل کیا، ایک طرف روزگار ختم ہوا تو دوسری جانب روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ماضی میں وزارت اطلاعات کو حکمران پارٹی کا ترجمان بنا دیا گیا تھا، آج وزارت اطلاعات ریاست کے ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی این این نے نور مقدم کیس کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان خواتین کے لئے محفوظ ملک نہیں ہے، جب ہم نے اعداد و شمار حاصل کئے
اور انہیں بتایا کہ امریکا میں خواتین کے خلاف مظالم پاکستان سے دس گنا زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا نکتہ نظر وہ شائع نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں جنگیں طاقت کے زور پر لڑی جاتی تھی لیکن اب رائے عامہ کی جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 70 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں لیکن آج تک اس پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اور نہ ہی کوئی ایسی فلم بنائی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کیا قربانیاں پیش کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ فلم اور ٹی وی کے حوالے سے ہمیں اپنی سوچ بدلنا ہوگی، ہمیں نئی ریگولیشنز لانا ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں آگے بڑھنے کے لئے سب سے پہلے ڈیجیٹل میڈیا پر توجہ دینا ہوگی۔
چوہدری فواد حسین نے کہا کہ اس وقت 25 ارب روپے کی ڈیجیٹل ایڈورٹائزمنٹ ہے، آئندہ پانچ برسوں میں یقیناً ہماری ایڈورٹائزمنٹ کا بجٹ کئی گنا زیادہ ہوگا۔ رسمی ایڈورٹائزمنٹ اور ڈیجیٹل ایڈورٹائزمنٹ کا بجٹ دو سال میں اپ سیٹ ہو جائے گا۔ رسمی ایڈورٹائزمنٹ نیچے آئے گی اور ڈیجیٹل ایڈورٹائزمنٹ اوپر جائے گی۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا کی ترقی کا مطلب یہ نہیں کہ اخبارات یا ٹی وی ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ہمارے بچے ٹی وی کی بجائے لیپ ٹاپ اور فون کو اہمیت دیں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ دنیا میں لائٹس اور سائونڈز میں لوگوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے جبکہ ہمارے پاس دور دور تک ایسے لوگ میسر نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس شعبہ میں ترقی کے لئے ہم پہلی مرتبہ میڈیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی بنا رہے ہیں، برطانیہ کی بورن موتھ یونیورسٹی بھی اس میں ہمارے ساتھ اشتراک کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں اینی میشن، ویژوئل ایفیکٹس، فلم سازی، کیمرہ ورک کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے بتایا کہ ملک میں جرنلزم کے 42 سکولز ہیں، ان میں 1960ءکا نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس نصاب کو جدید خطوط پر
استوار کرنا ہوگا۔ چوہدری فواد حسین نے بتایا کہ ہم پی ٹی وی میں 200 انٹرن شپس، اے پی پی میں 500 انٹرن شپس اور ڈیجیٹل میڈیا ونگ میں 300 انٹرن شپس دے رہے ہیں۔ میڈیا میں مجموعی طور پر 1500 انٹرن شپس دیئے جائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ ہم ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو دور کر رہے ہیں۔ ہم نے گزشتہ تین ماہ کے دوران دو بڑی ریفارمز کیں جن پر ہمیں فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کو ایچ ڈی کر دیا گیا ہے جبکہ ریڈیو کی نشریات انٹرنیٹ پر منتقل کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے ڈیجیٹل کیبل پالیسی کی منظوری دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت زیادہ تر کیبل اینالاگ ہے، ہمارے چار ہزار کیبل آپریٹرز ہیں جن کے دو کروڑ صارفین ہیں۔ ان صارفین میں سے ڈیڑھ کروڑ صارفین ایسے ہیں
جو اینالاگ کیبل استعمال کر رہے ہیں جبکہ پچاس سے ساٹھ لاکھ صارفین ڈیجیٹل کیبل پر ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم کیبل آپریٹرز کو کامیاب جوان پروگرام کے تحت قرض دیں گے تاکہ وہ اپنے صارفین کو ڈیجیٹل کیبل فراہم کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سبسکرپشن کا ماڈل بھی متعارف کروا رہے ہیں، ہمارے ہاں انگریزی چینلز نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی سبسکرپشن نہیں ہے۔انہوں نے مثال دی کہ لیاری میں باکسنگ کا ٹورنامنٹ ہو رہا ہو شاید وہ پوٹھوہار کے لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث نہ ہو لیکن لیاری کے لوگ اس میں دلچسپی رکھیں گے لہذا لیاری کا مقامی کیبل آپریٹر وہ ٹورنامنٹ خرید کے اپنے صارفین کو سبسکرپشن کے ذریعے دکھا سکتا ہے۔اس سے میڈیا کے منظر نامہ میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس موقع پر شرکا کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔