اسلام آباد (اے پی پی)پاکستان سے اپنے سفیر اور سینئر سفارتکاروں کو واپس بلانے کا افغانستان حکومت کا فیصلہ بدقسمتی اورافسوسناک ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں سفیر کی صاحبزادی کے اغوا اور تشدد کے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور وزیراعظم کی ہدایات کی روشنی میں اعلی ترین
سطح پر اس ضمن میں پیش رفت کو دیکھا جارہا ہے۔سفیر، ان کے اہل خانہ ، سفارتی عملے اور پاکستان میں افغانستان کے قائم قونصل خانوں کے لئے حفاظتی انتظامات میں مزید اضافہ کردیاگیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ نے افغانستان کے سفیر سے ملاقات کی اور انہیں ان اقدامات سے آگاہ کیا جو حکومت پاکستان اس ضمن میں کررہی ہے اور انہیں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ہمیں امید ہے کہ افغانستان کی حکومت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عجلت میں افغان سفیر کی طلبی پر ہمیں تشویش ہے، جس عجلت میں جب وہ جا رہے ہیں اس سے بہت سے سوالیہ نشان اٹھتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ افغان سفیر یہاں رہیں اور تحقیقات میں تعاون کریں تاکہ ہم بات کی تہہ تک پہنچیں اور جنہوں نے یہ حرکت کی ہے انہیں قرارواقعی سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تاشقند میں افغان صدر اشرف غنی نے غیرذمہ دارانہ بات کی ہے کہ 10 ہزار لوگ پاکستان سے دراندازی کر کے
افغانستان میں داخل ہوئے ہیں، ان کے پاس کوئی ٹھوس شواہد بھی نہیں، میں نے افغان صدر سے کہا کہ ایک طرف آپ پاکستان پر الزمات لگا رہے ہیں اور دوسری طرف تعاون کی درخواست کر رہے ہیں، پاکستان امن میں شراکت دار بننا چاہتا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے افغانستان میں امن و استحکام کے حوالے سے اسلام آباد میں ایک امن کانفرنس کا
انعقاد کرنا چاہا لیکن افغانستان میں ایک چھوٹا طبقہ نہیں چاہتا کہ یہ امن کانفرنس ہو اور بھارت کو بھی اس پر شدید اعتراض تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت افغانستان میں سپائلر کا کردار ادا کر رہا ہے، ایک طرف بھارت دنیا کو تاثر دے رہا ہے کہ وہ امن و استحکام کے عالمی ایجنڈے میں ان کا ساتھی ہے لیکن دوسری جانب وہ افغانستان میں امن میں رخنہ اندازی کر رہا ہے، بھارت کا دوہرا معیار خطے کے امن کیلئے بہت خطرناک ہے۔