اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک، این این آئی )سوشل میڈیا پر گردش کرتے ایک اعلامیہ کے مطابق خیبر کے علاقے وادی تیراہ میدان کے مقامی مذہبی گروہ نے علاقے میں تصویر، ویڈیو سازی اور موسیقی کے آلات پر پابندی عائد کردی ہے اور وارننگ جاری کی ہے کہ پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے اپنے جانی و مالی نقصان کے ذمہ دار خود ہوں گے۔میڈیا رپورٹس
کے مطابق فقہی شوری علما آفریدی اقوام کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں سیاحت کیلئے مہمانوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ یہاں تصاویر اور ویڈیوز بنانے پر پابندی عائد ہے،نیز علاقے میں کسی قسم کے آلات موسیقی، گٹار، ٹیپ ریکارڈر ساتھ لانے پر بھی پابندی ہوگی۔اعلامیہ میں سیاحوں کو وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مذکورہ بالا پابندیوں کی خلاف ورزی کرنیوالے شخص کو اگر کسی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا ذمہ دار بھی وہ شخص خود ہوگا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتے اس اعلامیہ کے حوالے سے جب مذکورہ تنظیم سے رابطہ کیا تو تنظیم کے عہدیداران نے اعلامیہ کی تصدیق و تردید سے گریز کیا ہے۔دوسری جانب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر خیبر وسیم ریاض کا کہنا ہے کہ جس تنظیم کے نام سے اعلامیہ جاری ہوا اس کے تمام افراد کو تھانے بلوا کر پوچھ گچھ کی مگر سبنے ایسے اعلامیہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے احکامات دینا
صرف سرکاری انتظامیہ کا کام ہے اور ہم ریاستی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغانستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور ترقی میں تعاون کا خیرمقدم کرنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا کسی ملک میں بیرونی ایجنڈا نہیں ہے اور ہم اپنا انقلاب کسی دوسرے ملک میں برآمد نہیں کریں گے۔ایک انٹرویو
میں ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کہا کہ ‘ہم نے جو امن معاہدہ کیا ہے اس کی رو سے تمام افواج افغانستان سے نکلیں گی اور کابل کے سیاسی فریقین سے امن مذاکرات ہوں گے اور اس کیلئے دوحہ میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہو رہا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘جو اضلاع ہمارے قبضے میں آئے ہیں وہ لڑائی کے ذریعے نہیں آئے بلکہ وہاں موجود کابل حکومت کی فورسز
خود رضاکارانہ طور ہمارے ساتھ مل گئی ہیں، ورنہ یہ ممکن نہیں ہے ہم ایک دو مہینوں میں سارے افغانستان کے اضلاع کو قبضے میں لے لیں’۔ انہوں نے کہا کہ ‘ایسا 20 سال میں ممکن نہیں تھا اور اس وقت بھی ممکن نہیں ہے لیکن کابل انتظامیہ اور اس کے حامی ایسا پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ ہم عسکری قبضے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہیں۔