اسلام آباد(این این آئی)پاکستان میں تعینات ترک سفیر احسان مصطفی یردکل نے کہا ہے کہ ہمارا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے، افغانستان میں ترکی کا جو بھی کردار ہوگا، وہ وہاں کے عوام کے لیے ہوگا، کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے امریکا سے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے ترکی کے سفارت خانے میں پریس کانفرنس کے دوران کیا، انھوں نے کہا ترکی کے
افغانستان سے تاریخی سماجی ثقافتی تعلقات ہیں، ہماری دل چسپی مستحکم، خوش حال اور پْر امن افغانستان ہے، پر امن افغانستان ہی پورے خطے کے استحکام، ترقی اور خوش حالی کے لیے اہم ہے۔احسان مصطفی یردکل نے بتایا کہ ہمارے امریکا سے مذاکرات جاری ہیں کہ ترکی کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی جاری رکھے، ترکی کا افغانستان میں جو بھی کردار ہوگا وہاں کے عوام کے لیے ہوگا، ہمارا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے۔ ترک سفیر نے کہا ترکی اور پاکستان کے اعلیٰ سطحی سیاسی تعلقات ہیں، ترکی اور پاکستان دونوں افغانستان میں استحکام، امن اور خوش حالی چاہتے ہیں، خطے، مشترکہ مفادات اور افغان صورت حال پر دونوں ممالک کے درمیان ہر سطح پر مشاورت جاری رہتی ہے۔سفیر احسان مصطفی یردکل نے ترکی کی جدوجہد اور بغاوت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی کو بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر فوجی بغاوتوں اور مسائل کا سامنا رہا، ترکی میں اک پارٹی کی 2002 میں آمد کے بعد جمہوری اقدار مضبوط ہوئیں، لیکن 15 جولائی 2016 کو حکومت کے خاتمے کے لیے فوجی بغاوت ہوئی، اس ناکام بغاوت میں تمام اقدار کو پامال کیا گیا۔انھوں نے کہا کہ اس بغاوت کا مقصد منتخب حکومت کا خاتمہ اور مخصوص گروپ اور فتح اللہ گولن کی حکومت قائم کرنا تھا، فوجی بغاوت کے پیچھے موجود عناصر نے حکومتی اداروں، سیاسی شخصیات، عوام کو ہدف بنایا، یہ جمہوریت کے خلاف شب خون مارنے، مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سیاہ باب تھا، بغاوت کے دوران ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی، نیشنل انٹیلی جنس دفتر، پولیس ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا گیا، ترکی میں بغاوت کے 5 سال بعد آج بھی جمہوری جدوجہد جاری ہے۔ترک سفیر کے مطابق اسلام آباد میں 15 جولائی کی صبح فاطمہ جناح پارک میں شجر کاری کی جائے گی، اسی دن شام کو سفارت خانے میں خصوصی تقریب کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔دوسری جانب طالبان نے ترکی کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ترک افواج نے افغانستان نہ چھوڑا تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔میڈیارپورٹس کے مطابق طالبان نے آئندہ ماہ نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لیے ترکی کے فوجی دستوں کی افغانستان میں موجودگی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد جو ملک بھی یہاں رکے گا اس کو قابض سمجھا جائے گا۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ ترکی افغانستان میں 20 سال سے موجود ہے تاہم اگر وہ اب بھی یہاں رکنا چاہتا ہے تو میں واضح کردوں کہ ترک افواج کو قابض فوج تصور کیا جائے گا اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ترکی اسلامی ملک ہے اور ہم ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، ترکی اور افغانستان کے درمیان بہت کچھ مشترکہ ہے لیکن اگر انہوں نے مداخلت کی اور اپنے فوجی افغانستان میں رکھے تو اس کی ذمہ داری ترکی پر ہی ہوگی۔