اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے، شہید کو مرا ہوا نہ کہو کیوں کہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا چکے ہیں۔ ایسے ہی ایک شہید میجر اسحاق بھی تھے۔ جنہوں نے 22 نومبر 2017 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں کیے جانے والے ایک سرچ آپریشن کے
دوران شہادت کا مرتبہ حاصل کیا تھا۔ہماری ویب کی رپورٹ کے مطابق ان کے پسماندگان میں ایک بیوہ ڈاکٹر عائشہ خالق اور ان کی دو سال کی بچی تھی۔ میجر اسحاق جیسے خوبصورت جوان کی شہادت نے ہر دیکھنے والے کی آنکھ کو اشکبار کر دیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ عائشہ خالق نے ہمت ہارنے کے بجائے اپنے شوہر ہی کے راستے کو اپناتے ہوئے آرمی میڈیکل کالج میں ٹریننگ کے لیے اپلائی کر دیا جہاں انہوں نے نہ صرف کامیابی کے ساتھ میڈیکل کورس مکمل کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فائرنگ کی ٹریننگ بھی حاصل کی اور اپنے شہید شوہر کی گن کے ساتھ پریکٹس کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ یہ کورس بھی مکمل کیا۔میجر اسحاق جیسے ہنستے مسکراتے نوجوان کی جدائی کا سانحہ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب ان کی جیسی چمکتی ہوئي آنکھوں اور مسکراہٹ والی بیٹی ہر ہر لمحہ ان کی یاد دلانے کے لیے موجود ہو- ان حالات میں ڈاکٹر عائشہ نے خود کو بہت سارے کاموں میں مصروف کر لیا جو ان کو بظاہر زںدگی گزارنے کا مقصد تو فراہم کر رہے ہیں مگر شہید کی یاد کو بھولنے نہیں دیتے ہیں-حالیہ دنوں میں ڈاکٹر عائشہ خالق نے شہادت سے قبل میجر اسحاق کے زخموں پر بندھی خون آلود پٹیوں کو جمع کر کے ان سے خطاطی کے انداز میں کلمہ طیب لکھا وہ کلمہ لکھا جس کی سر بلندی کے لیے ان کے شوہر نے اپنی جان خالق حقیقی کی بارگاہ میں ایک نذرانے کے طور پر پیش کی، آرٹ کا یہ نمونہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ہے کیونکہ اس میں ایک شہید کے زخموں کا خون شامل ہے ۔ جس کی تخلیق میں ایک محبت کرنے والی بیوی کی محبت اور شوہر سے جدائي کا عارضی خیال پوشیدہ ہے- اس بات کا یقین تو ڈاکٹر عائشہ کو بھی ہے کہ اس مختصر سی زندگی کے خاتمے کے بعد آخرت کی ابدی زندگی میں وہ میحر اسحاق کے ساتھ جنت میں ہمیشہ کے لیے ساتھ ہوں گی- ٹوئٹر پر شئير کی جانے والی یہ تصویر نہ صرف تیزی سے وائرل ہو رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈيا صارفین اپنی محبت کا اظہار ان کی بیگم عائشہ خالق اور شہید میجر اسحاق کے لیے بھی کر رہے ہیںبے شک شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔