اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )ناروے کے سب سے بڑے پنشن فنڈ ‘کے ایل پی نے غرب اردن میں اسرائیل کی قائم کردہ یہودی بستیوں سے وابستہ سولہ کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ان کمپنیوں میں آلسٹوم اور موٹرولا بھی شامل ہیں۔العربیہ کی رپورٹ کے مطابق
ناروے دنیا کے بیشتر دوسرے ملکوں کی طرح اسرائیل کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قراردیتا ہے۔اقوام متحدہ کی 2020ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق غربِ اردن میں 112 کمپنیاں کام کررہی تھیں۔کے ایل پی نے سوموار کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ٹیلکام ، بنک کاری اورتوانائی سے تعمیرات تک شعبوں میں یہ کمپنیاں غربِ اردن میں کام کررہی ہیں۔یہ تمام کمپنیاں اسرائیل کی علاقے میں موجودگی کو برقرار رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہورہی ہیں،اس لیے وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہیں اور فلسطینی علاقے میں ان کے کاروبارپنشن فنڈ کی رہ نما اخلاقی اقدار اور ہدایات کے منافی ہیں۔بیان کے مطابق کے ایل پی کے جائزے میں اس امرکا ناقابل قبول اندیشہ موجود ہے کہ یہ کمپنیاں جنگ اورتنازعات کی صورت حال میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں سے اپنے تعلق کی بنا پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھی شراکت دار ہیں۔‘کے ایل پی نے اسرائیلی بستیوں سے وابستہ کمپنیوں میں مزید سرمایہ کاری نہ کرنے کا اقدام ناروے کے خودمختار فنڈ کے مئی میں ایک فیصلے کے بعد کیا ہے۔اس فنڈ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں میں کام کرنے والی دوکمپنیوں کو اپنی فہرست سے خارج کردیا تھا۔ کے ایل پی نے مزید بتایا ہے کہ اس نے مقبوضہ غربِ اردن میں کام کرنے والی کمپنیوں میں اپنے ساڑھے 27 کروڑ نارویجیئن کراؤن (قریباًتین کروڑ 18 لاکھ ڈالر) مالیت کے حصص فروخت کردیے ہیں اور جون میں حصص کی فروخت کا عمل مکمل کر لیا تھا۔فنڈ نے موٹرولا اور آلسٹوم میں بانڈ ہولڈنگز کو بھی فروخت کردیا ہے۔