اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد کے مشہور شابنگ مال ’’سینٹورس‘‘ میں انٹری فیس 300راولپنڈی کے لڑکوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا کراچی کے بلاگر عامر سومرو کی ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں انہوں نے سینٹورس کی انٹری ٹکٹ دکھائی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ میری کچھ ویڈیوز اسلام
آباد کے نجی شاپنگ مال کی وائرل ہو رہی ہیں، یہ بحث کراچی یا اسلام آباد کی نہیں ہے یہ بحث صرف صرف اتنی ہے کہ ایسا کیون؟ صرف اتنی سی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی چیز اگر 300کیا 200کیا، کوئی کراچی کا مال بھی 100روپے انٹری ٹکٹ لگائے گا تو میں سب سے پہلے وہاں جا کر ویڈیو بنائوں گااور میں اس کیخلاف کھڑا ہوں گا۔ عامر سومرو کا کہنا تھا کہ ایک بات جو مجھے بری لگی ہیاور تکلیف پہنچی ہے، لوگوں نے آکر پنڈی والوں کے بارے میں اتنے کمنٹس لکھے کہ یہ فیس ان کی وجہ سے ہے، لیکن میں یہ کہوں گا کہ پنڈی بوائز کیا مطلب یہ پاکستان اس طرح کسی کے بارے میں نہ کہیں باقی اسلام آباد والوں کو کوئی بات بری لگی اس کیلئے معذرت کرتاہوں۔ اس حوالے سے مال انتظامیہ کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ فیس فیملیز اور خواتین کو محفوظ ماحول دینے کیلئے رکھی گئی ہے۔ دوسری جانب آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اشرف بھٹی نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش ہونے کے بعد بہت سے خدشات اور افواہیں جنم لے رہی ہیں جنہیں حکومت بجٹ منظوری کے مرحلے سے قبل دور کرے،ایف بی آر کو نیب طرز کے اختیارات کے حوالے سے بھی اطلاعات آرہی ہیں جس سے شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے دفتر میں بلائے گئے ہنگامی اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں انجمن تاجران کے علاوہ مختلف مارکیٹوں کے عہدیداروں نے شرکت کی جبکہ کراچی سمیت دیگر علاقوں کے تاجر وں رہنماؤں نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی او رحکومت کے فیصلوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اشرف بھٹی نے کہا کہ ایف بی آر کو جس طرح کے اختیارات دینے کی باتیں کی جارہی ہیں ا س کا مقصد تاجروں کو ہراساں کرنااور کاروباری فضا ء خراب کرنا ہے جسے ہم یکسر مسترد کرتے ہیں،
حکومت نے اس طر ح کے فیصلے کئے تو ملک بھر کی تاجر برادری سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ اس سلسلہ میں فی الفور اپنی وضاحت پیش کریں او رتاجر تنظیموں کے رہنماؤں کو ملاقات کے لئے مدعو کے تحفظات دور کریں۔تاجر طبقہ ہر طرح کا تعاون کر رہا ہے لیکن اسے پھر بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو قابل مذمت ہے لیکن اب ہم اس رویے کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔