لاہور (آن لائن) پنجاب حکومت نے مالی سال 2021-22 کے بجٹ کا اعلان کر دیا ہے، جس کا مجموعی حجم 26 کھرب 53 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے، یہ حجم رواں مالی سال کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ ہے، آئندہ مالی سال میں وفاقی محصولات کی وصولی کا ہدف 5839 ارب روپے ہے جس سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت پنجاب کو 1684 ارب روپے منتقل کیے جائیں گے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ ہوں گے جبکہ صوبائی محصولات کے لئے 405 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے
کہ جو رواں مالی سال کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ ہے، بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ 1428 ارب روپے لگایا گیا ہے، صوبہ پنجاب کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 560 ارب روپے کے فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں ترقیاتی بجٹ میں ایک سال میں 66 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے، صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں پنجاب کی تاریخ کا پہلا اور پنجاب حکومت کا تیسرا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں سوشل سیکٹر یعنی تعلیم اور صحت کے لیے 205 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 110 فیصد زیادہ ہیں، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لیے 145 ارب 40 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 87 فیصد زیادہ ہیں، اسپیشل پروگرامز کے لیے 91 ارب 41 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 92 فیصد زیادہ ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میں اکنامک گروتھ کے لیے پیداواری شعبوں جن میں صنعت، زراعت، لائیو سٹاک، ٹورازم، جنگلات وغیرہ شامل ہیں 57 ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں 234 فیصد زیادہ ہیں۔ بجٹ 2021-22میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تیاری اور Regional Equalization کے تناظر میں کی گئی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے منشور کی بنیاد ہے۔ ترقیاتی پروگرام کے نمایاں منصوبہ جات میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام، یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام، سڑکوں کی بحالی، مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ کیئر ہسپتالوں کا قیام، سکولوں کی اپ گریڈیشن، معاشی ترقی کے خصوصی مراعات، ورک فورس کی تیاری، اینوائرمنٹ اینڈ گرین پاکستان اور پبلک ہائوسنگ سکیم شامل ہیں۔ آئندہ مالی سال میں صحت کے شعبہ کیلئے مجموعی طور پر 370 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں، شعبہ صحت کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی بجٹ 96 ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 182 فیصد زائد ہے۔ ہمارا سب سے بڑا اور اہم ترین منصوبہ 80 ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے والا یونیورسٹل ہیلتھ انشورنس
پروگرام ہے جس کے تحت پنجاب کی 100 فیصد آبادی کو مفت اور معیاری علاج کی سہولت دستیاب ہو گی۔ ہیلتھ انشورنس کارڈ کے ذریعے ہر شخص صوبے کے کسی بھی سرکاری یا منظور شدہ پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کروا سکے گا۔ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے شعبے کے لئے اگلے مالی سال میں 78 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا جا رہا ہے۔
آئندہ ترقیاتی پروگرام میں چلڈرن ہسپتال لاہور میں Peads Burn Center کا قیام، ایک ہزار بستروں پر مشتمل جنرل ہسپال لاہور کا قیام، 200 بستروں پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال ملتان اور PET Scan and Cyclotron Machine کی نشتر ہسپتال ملتان میں فراہمی شامل ہیں جن کے لئے ہم مطلوبہ فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔ آئندہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ایک انتہائی اہم اقدام پنجاب کے 5 اضلاع راجن پور، لیہ، اٹک، بہاولنگر اور سیالکوٹ میں 24 ارب روپے کی لاگت سے جدید ترین مدر
اینڈ چائلڈ ہسپتالوں کا قیام ہے۔ یہ منصوبے وفاقی اور صوبائی حکومت کے مالی اشتراک سے شروع کئے جا رہے ہیں۔ محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 19 ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔ آئندہ سال پنجاب کے 119 ٹی ایچ کیو ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن اور اصلاحات کے لئے 6 ارب روپے کا ایک جامع پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ مزیدبرآں چنیوٹ، حافظ آباد اور چکوال میں 16 ارب 60 کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ترین
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ Preventive Healthcare {Programe کے تحت ٹی بی، ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض پر قابو پانے کے لیے 11 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر صوبے میں 36 BHUs کو اپ گریڈ کر کے RHCs بنا دیا جائے گا۔ پنجاب میں کرونا کی ویکسینیشن کے لئے 10 ارب روپے کا خصوصی بلاک رکھے جانے کی تجویز ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کے لئے 35 ارب 25 کروڑ روپے کی خطیر رقم مہیا کی جا رہی ہے۔ پنجاب کے 14 شہروں میں 3 ارب 50 کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ٹراما سنٹرز
قائم کیے جا رہے ہیں۔ تعلیم ہماری حکومت کی اولین ترجحیات میں سے ایک ہے لہٰذا اس سال بھی پچھلے برسوں کی طرح ہم نے تعلیم کے شعبے میں فنڈز میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ آئندہ سال تعلیم کا مجموعی بجٹ 442 ارب روپے رکھا گیا ہے جو موجودہ سال سے 51 ارب روپے زیادہ ہے، ترقیاتی اخراجات کے لیے 54 ارب 22 کروڑ روپے جبکہ جاری اخراجات کے لیے 388ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ Access یا رسائی کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انصاف سکول اپ گریڈیشن پروگرام جیسے
انقلابی منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے جس کے تحت آئندہ سال پنجاب کے 25 فیصد پرائمری سکول یعنی 8 ہزار 360 پرائمری سکولوں کو ایلیمنٹری سکول کا درجہ دیا جائے گا، ان اپ گریڈ سکولوں میں تقریباً 40 فیصد سکول جنوبی پنجاب میں ہیں، سکول اپ گریڈیشن کی مد میں آئندہ سال کے بجٹ میں 6 ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے، ایک اندازے کے مطابق اس پروگرام کے تحت 20 لاکھ سے زائد بچے سکولوں میں واپس آ کر اپنا تعلیمی سفر
جاری رکھ سکیں گے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن اور PEIMA کے تحت سکولوں میں 33 لاکھ بچے حکومت کی امداد سے تعلیم حاصل کریں گے جس کے لئے 23 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ ہایئر ایجوکیشن کی اہمیت کے مدنظر آئندہ بجٹ میں 15 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں جو کہ پچھلے سال کی نسبت 285 فیصد زیادہ ہیں۔ صوبائی حکومت ہر ضلع میں طالب علموں کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بڑھانے کے لیے یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لا رہی ہے۔ اب تک 6 نئی
یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ مزید برآں پنجاب کے 8 اضلاع اٹک، گوجرانوالہ، راجن پور، پاکپتن، حافظ آباد، بھکر، لیہ اور سیالکوٹ میں یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دے دی گئی ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں 7 نئی یونیورسٹیاں قائم کرنے کی تجویز ہے، رواں سال سے ذہین اور مستحق طالب علموں کے لئے رحمۃ للعالمینﷺ سکالر شپس کا آغاز کر دیا گیا تھا اور اس مد میں 83 کروڑ 40 لاکھ روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں جس سے سالانہ 15 ہزار طلبا و طالبات مستفید ہو سکیں گے۔
یہ تمام اقدامات پنجاب میں نالج اکانومی کے فروغ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے 189 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں جو کہ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 34 فیصد ہے ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جنوبی پنجاب کے حصے کا پیسہ جنوبی پنجاب میں ہی خرچ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں 360 ارب روپے کی لاگت سے ایک عہد ساز ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کر رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت پنجاب کے 36 اضلاع میں ترقیاتی سکیموں کا جال بچھا دیا جائے گا۔ اس پروگرام کے تحت سڑکوں کی تعمیر و مرمت ، فراہمی
و نکاسی آب ، بنیادی تعلیم و صحت سے متعلقہ ترقیاتی کام کیے جائیں گے جس سے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو گا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس منصوبے کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 99 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اگلے مالی سال کے بجٹ میں لاہور کی مرکزی اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر ترقیاتی منصوبوں کے لئے 28 ارب 30 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے، جس کے تحت شہر میں انفراسٹرکچر کے بڑے پراجیکٹس شروع کئے جائیں گے، لاہور میں اس وقت زیر تعمیر اہم منصوبوں میں شاہ کام چوک، گلاب دیوی ہسپتال انڈر پاس اور شیرانوالہ گیٹ
اوورہیڈ شامل ہیں، لاہور شہر میں پانی کی شدید قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے Surface water Treatment Plant لگایا جا رہا ہے جس کے لیے آئندہ مالی سال میں ایک ارب50 کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کئے جانے کی تجویز ہے، لاہور شہر میں آخری بڑا جنرل ہسپتال 1984 میں تعمیر ہوا۔ ہماری حکومت اس سال ایک ہزار بستروں پر مشتمل جدید ترین ہسپتال کی تعمیر کا آغاز کرنے جا رہی ہے، جس سے لاہور کے شہریوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ پنجاب حکومت نے رواں مالی سال میں کاروبار کی بحالی اور ترقی کے لیے فراہم کردہ ٹیکس ریلیف کو آئندہ مالی سال میں
بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس مقصد کے لئے آئندہ بجٹ میں 50 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس رعایت دی جا رہی ہے جس کے تحت بورڈ آف ریونیو کی جانب سے ٹیکسوں کی مد میں اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح کو 1 فیصد پر برقرار رکھا جائے گا، 40 ارب روپے کی اس رعایت کا مقصد کنسٹرکشن کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ رواں مالی سال میں جن 25 سے زائد سروسز پر پنجاب سیلز ٹیکس کی شرح کو 16 فیصد سے 5 فیصد کیا گیا تھا ان کو آئندہ مالی سال میں بھی برقرار رکھا جائے گا،
ان سروسز میں چھوٹے ہوٹلز اور گیسٹ ہائوسز، شادی ہال، لانز، پنڈال اور شامیانہ سروسز وکیٹرز، آئی ٹی سروسز، ٹور آپریٹرز، جمز، پراپرٹی ڈیلرز، رینٹ اے کار سروس، کیبل ٹی وی آپریٹر، Treatment of Textile and Leather، زرعی اجناس سے متعلقہ کمیشن ایجنٹس، آڈٹنگ، اکائونٹنگ اینڈ ٹیکس کنسلٹنسی سروس، فوٹو گرافی اور پارکنگ سروسز ویغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح آئندہ مالی سال میں دس مزید سروسز پر سیلز ٹیکس کو 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجاویز بھی پیش کی
جا رہی ہیں۔ ان نئی سروسز میں بیوٹی پارلرز، فیشن ڈیزائنرز، ہوم شیفس، آرکیٹکٹ، لانڈریز اور ڈرائی کلینرز، سپلائی آف مشینری ، ویئر ہائوس، ڈریس ڈیزائنر اور رینٹل بلڈوزر وغیرہ شامل ہیں۔ کال سینٹرز پر ٹیکس کی شرح کو ساڑھے 19 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، رواں مالی سال میں ریسٹورنٹس کے لئے کیش ادائیگی پر ٹیکس کی شرح 16 فیصد جبکہ بذریعہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ ادائیگی پر 5 فیصد کیا گیا تھا۔ اگلے مالی سال کے لئے Mobile Wallet اور QR کوڈ کے ذریعے ادائیگی پر بھی ٹیکس کی شرح 5 فیصد
کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے تحت رواں مالی سال کی طر ح آئندہ مالی سال میں بھی پراپرٹی ٹیکس دو اقساط میں ادا کیا جا سکے گا، پراپرٹی ٹیکس اور موٹر وہیکل ٹیکس پر نافذ شدہ سرچارج پینلٹی کو آئندہ مالی سال کی صرف آخری دو سہ ماہیوں تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کے لیے الیکٹرک وہیکلز کی خریدوفروخت کی حوصلہ افزائی کے لیے رجسٹریشن فیس اور ٹوکن فیس کی مد میں 50 فیصد اور 75 فیصد تک
چھوٹ دی جائے گی۔ صوبائی وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے کہا کہ معاشی ترقی کے لئے صنعت و تجارت کے شعبہ کو مطلوبہ مالی وسائل کی فراہمی انتہائی ضروری ہے، علامہ اقبال انڈسٹریل اسٹیٹ فیصل آباد، بہاولپور اور سیالکوٹ میں انڈسٹریل اسٹیٹس اور قائداعظم بزنس پارک شیخوپورہ جیسے اہم منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں اور ان مقاصد کے لئے 3 ارب 50 کروڑ روپے کے فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں، SME سیکٹر کے فروغ کے لئے گجرات میں 1 ارب 30 کروڑ روپے کی لاگت سے
سمال انڈسٹریل سٹیٹ کا قیام بھی ہمارے ترقیاتی اقدامات میں شامل ہے اسی طرح سیالکوٹ میں 1 ارب 70 کروڑ روپے کی لاگزت سے سرجیکل سٹی سیالکوٹ کے منصوبے کا آغاز کیا جا رہا ہے، سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اور انڈسٹری کے تعاون سے 50 کروڑ روپے کی لاگت سے Sialkot Tannery Zone کا قیام بھی عمل میں لا جا رہا ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال میں 35 کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں 10 ارب روپے کی مجموعی لاگت سے پنجاب روزگار پروگرام کے تحت آسان شرائط پر
قرضے بھی فراہم کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب کے مختلف اضلاع میں 362 سہولت بازار کام کر رہے ہیں ہم ان بازاروں کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے ماڈل بازار اتھارٹی کا قیام عمل میں لا رہے ہیں جس کے تحت پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں ماڈل بازار تعمیر کیے جا رہے ہیں جس کے لئے اگلے سال میں ایک ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی جا رہی ہے۔
آئندہ مالی سال میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے ایک اہم منصوبہ Improving work force Readiness in Punjab کے نام سے شروع کیا جارہا ہے، جس کے تحت 40 ہزار طلبہ کی فنی تربیت کی جائے گی، اس منصوبے کے لئے 17 ارب روپے کے فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب 9 ارب روپے کی لاگت سے Skilling Youth for income Generation کا منصوبہ بھی شروع کر رہی ہے، ہنرمند نوجوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کی تربیت کا سلسلہ بھی آئندہ مالی سال میں جاری رہے گا۔ صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم آئندہ مالی سالے 380 ار
ب روپے لاگت کی سڑکوں کی تعمیر، مرمت اور توسیع کا ایک جامع پروگرام شروع کر رہے ہیں اس پروگرام کے تحت صوبے کے طول و عرض میں تیرہ ہزار کلو میٹر لمبائی کی 1967 ترقیاتی سکیمیں مکمل کی جائیں گی، آئندہ مالی سال میں اس مقصد کے لئے 58 ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے، اس پروگرام کے تحت صوبے میں 73 ارب کی مالیت سے 776 کلو میٹر لمبی 13 اہم شاہراہوں کی تعمیر و توسیع کا کام شروع کیا جا رہا ہے، جس کے لئے آئندہ مالی سال میں 33 ارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ آئندہ سال صوبے میں سڑکوں کی تعمیر و توسیع اور بحالی کے منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر 105 ارب روپے کی ریکارڈ رقم خرچ کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت آئندہ مالی سال میں Peri Urban Housing Scheme کے تحت ترقیاتی کام جاری رکھے گی۔ اس منصوبے کے تحت اوسطاً ایک گھر
14 لاکھ روپے کی قیمت پر میسر ہو گا، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کیلئے مجموعی طور پر حکومت پنجاب 3 ارب روپے کے فنڈز مہیا کر رہی ہے، نیا پاکستان سکیم کے تحت 35000 اپارٹمنٹس بنائے جائیں گے، اس کے علاوہ پنجاب کے شہروں میں جدید انفراسٹرکچر اور شہری سہولیات کی فراہمی کے لئے 30 ارب روپے سے زائد کے فنڈز دیئے جا رہے ہیں۔ آئندہ مالی سال میں اس پروگرام کے لئے 4 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے ’’ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ‘‘ کی تنصیب کا ایک مربوط پروگرام شروع کیا جا رہا ہے جس کے تحت 5 بڑے شہر جس میں لاہور
اور فیصل آباد شامل ہیں۔ یہ پلانٹس لگائے جا رہے ہیں اس مقصد کے لئے بجٹ 2021-22 میں 5 ارب روپے سے زائد فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے جامع حکمتِ عملی کے تحت پنجاب آبِ پاک اتھارٹی تشکیل دی ہے جو دیہی اور دور دراز علاقوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائے گی۔ مزید برآں ہم پانچ سالہ WASA Transformation Plan بھی متعارف کروا رہے ہیں جس کے تحت بڑے شہروں کی پانی کی ضروریات پورا کرنے کیلئےWASA لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالا، فیصل آباد اور ملتان جامع بزنس پلان تشکیل دیں گے تا کہ یہ ادارے خود انحصاری کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔جنابِ اسپیکر! ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور بالخصوص پنجاب کی معاشی ترقی کا انحصار
زراعت کے شعبے پر ہے۔ اسی لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔اِسی حقیقت کے پیشِ نظر اگلے مالی سال میں محکمہ زراعت کے ترقیاتی بجٹ کو306% کے تاریخی اضافے کے ساتھ7ارب 75کروڑروپے سے بڑھا کر31ارب50 کروڑ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ آئندہ بجٹ میں Agriculture Transformation Programme کے تحت زراعت کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے پنجاب حکومت وفاقی حکومت کے وژن سے ہم آہنگ کئی انقلابی اصلاحات متعارف کروانے جا رہی ہے۔ یہ پروگرام دورِ حاضر کے جدید تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
نا صرف زرعی پیداوار میں اضافے کا موجب ہوگا بلکہ کسان کا معیارِ زندگی میں بہتر ی کا بھی امین ہو گا۔ علاوہ ازیں اس پروگرام کے تحت کسان کارڈ کا اجرا، فارم میکانائزیشن (Farm Mechanisation)میں جدت کا فروغ، آب پاشی میں پانی کا کفایت شعارانہ استعمال، کسان تک قرضوں کی آسان فراہمی اور Agricultural Research and Extension اداروں میں اصلاحات وغیرہ شامل ہیں۔دو سال پر محیط اِس اہم منصوبے کے لئے7ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے۔ اسی طرح نیشنل پروگرام برائے Improvement of Water Courses کے لیے5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسان کی خوشحالی اور اُس کی فصل کی پیداوار پر اُٹھنے والے اخراجات میں کمی لانے کی
خاطر کھاد، بیج اور زرعی ادویات وغیرہ کی خریداری، فصل بیمہ (Crop Insurance)، آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی پر سبسڈی کو 5 ارب 82 کروڑ روپے سے بڑھا کر 7 ارب6 کروڑ روپے کیا جا رہا ہے۔ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کے لیے مجموعی طور پر5 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔ جس میں جاری منصوبہ جات کیلئے 1 ارب 58 کروڑ کی رقم اور نئے منصوبوں کیلئے3 ارب42 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔وزیراعظم پاکستان کے زرعی خوشحالی منصوبہ کے تحت حکومت پنجاب کی جانب سے صوبہ بھر میں گھریلو مرغ بانی کے فروغ کیلئ
اس سال 11 کروڑ کی رقم رکھنے کی تجویز ہے۔ جانوروں کی صحت کے حوالے سے ڈویژن کی سطح پر ویٹرنری ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے جس کیلئے10کروڑ سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جانوروں کی نشوونما کے حوالے سے کسانوں کیلئے 50 فیصد سبسڈی پر Silage مشین کی فراہمی کا منصوبہ بھی لایا جا رہا ہے جس کے لئے 32 کروڑ سے زائد رقم رکھنے کی تجویز ہے۔جنابِ سپیکر! شجر کاری کو فروغ دیئے بغیر بڑھتی ہوئی آلودگی
اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں پر قابو پانا ممکن نہیں۔ چنانچہ حکومت پنجاب نے اس شعبے کے لئے مجموعی طور پر 4ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز کی ہے۔ جس کے تحت صوبہ بھر میں شجر کاری کے اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیراعظم پاکستان کے ten billion tsunami program کے لئے 2 ارب 56کروڑ سے زائد رقم رکھنے کی تجویز ہے۔جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے آئندہ مالی سال کے لیے 1ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔وزیراعظم کے وژن کے مطابق ہیڈبلوکی پر Wildlife Reserve، نمل لیک کی آرائش اور چیچہ وطنی کی جنگلی حیات کا
فارم بنانے کا منصوبہ بھی ہماری آئندہ مالی سال کی ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل ہے۔محکمہ ماہی پروری کیلئے تقریباً 1 ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے لیے4 ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جس سے4 لاکھ 60 ہزار افراد مستفید ہونگے۔ اس پروگرام میں بزرگوں کے لیے باہمت بزرگ پروگرام، فنکاروں کے لیے صلہ فن،خواجہ سرائوںTransgenders) کے لیے مساوات پروگرام، تیزاب گردی سے متاثرہ خواتین کے
لیے نئی زندگی پروگرام، بیوائوں اور یتیموں کے لیے سرپرست پروگرام جبکہ سویلین شہداء کے لیے خراج الشہداء پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔شہدا کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اور اُن کے پسماندگان کی مالی معاونت کیلئے ہم نے رواں مالی سال کے بجٹ میں 183%اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے14 کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقوم مہیا کی جائیں گی۔ اگلے سال وفاقی حکومت کے تعاون سے پنجاب احساس پروگرام کیلئے ا 12 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی ہے
جس سے مزید 7 لاکھ افراد مستفید ہونگے۔پنجاب ہیومین کیپٹل انویسٹمنٹ پراجیکٹ (Punjab Human Capital Investment Project)کے تحت لوگوں کو خطِ غربت کی لکیر سے نکالنے کیلئے 5 ارب 60 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے وزیرِ اعظم پاکستان کے وژن کے مطابق Stunted growthکے خاتمے اور زچہ وبچہ کی صحت و غذائی ضروریات کی فراہمی کے لئے معیاری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ جنابِ اسپیکر! ہماری حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی معاشرے کے کمزور ترین طبقات کی بہبود کیلئے پناہ گاہوں اور مسافر خانوں کے قیام کے اقدامات شروع کر دیے تھے۔اِن اقدامات کی ملک گیر پذیرائی کی بدولت ہم نے فیصلہ کیا کہ کمزور لوگوں کی کفالت کے اِن اداروں کو صوبے کے طول و عرض میں قائم کیا جائے۔ اس مقصد کیلئے پنجاب پناہ گاہ اتھارٹی قائم کر دی گئی ہے۔ اب تک مستقل اور عارضی پناہ گاہوں کی تعداد94 ہے جو معاشرے کے کمزور ترین افراد کے سماجی تحفظ کو حکومتی اور نجی شراکت داری سے معیاری اور باعزت خدمات مہیا کر رہی ہیں۔مالی سال 2021-22 میں جھنگ، ملتان اور ساہیوال میں پناگاہوں کی تعمیر، نشے کے عادی افراد کی بحالی کیلئے فیصل آباد میں علاج اور بحالی سنٹر کا قیام اور ملتان میں بحالی سنٹر کی تجدیدہماری ترجیحات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی جی خان میںمعذور افراد کیلئے
نشیمن گھر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ اور اٹک میں بچوں کیلئے ماڈل چلڈرن ہوم کا قیام بھی کیا جا رہاہے۔ ہماری حکومت نے سیاحت کے فروغ کے لیے ایک مربوط پالیسی وضع کر رکھی ہے جس کے تحت پنجاب میں پہلے سے موجود سیاحتی مقامات میں اصلاحات کے کئی اقدامات کیے ہیں۔اِس شعبے کی اہمیت کو جانتے ہوئے ہماری حکومت نے مختلف شعبوں میں شامل شدہ شعبہ سیاحت کو الگ کر کے محکمہ سیاحت و آثارِ قدیمہ کے نام سے ایک الگ محکمے کی حیثیت دی ہے۔ آئندہ مالی سال میں ہمارا
عزم ہے کہ لوگوں کو سیاحت کے بہترین مواقع مہیا کرنے کے لئے حکومت پنجاب نئے سیاحتی مقامات کی تعمیر کرے گی اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ مقامات پر تمام تر سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔حکومت پنجاب نے خصوصی طور پر Religious Tourism کے فروغ کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اس ضمن میں 2 ارب سے زائدکی رقوم مختص کی جا رہی ہے۔ReligiousTourism) مذہبی سیاحت کیلئے Improvement / Renovation of Religious Places of Minorities to Promote Tourism Programme کے تحت فیز ون میں 9کروڑ 28لاکھ کی لا گت سے سیکرڈ ہارٹ کیتھیڈرل لارنس روڈ، کیتھیڈرل چرچ مال روڈ اورکر شنا مندر صادق آباد ضلع رحیم یا رخان کی تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا گیا۔اسی طرح نئے سال میں اس پروگرام کے فیز ٹو کیلئے50
کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جس کے تحت عوامی نمائندوں سے مشاورت کے بعد جگہ کا تعین کیا جائے گاتا کہ مذہبی سیاحت میں مزید اضافہ کیا جائے۔ مالی سال 2021-22کے ترقیاتی پروگرام میں محکمہ سیاحت پنجاب کے لئے ایک ارب25کروڑ روپے کا بجٹ تجویزکیا گیا ہے۔ محکمہ سیاحت پنجاب نے مالی سال 2021-22کیلئے 20 نئے منصوبہ جات تجویز کئے ہیں جن کے تحت صوبہ بھر میںجو سیاحتی سہولیات میں مہیا کی جائیں گی اُن میں قابل ذکر تونسہ بیراج تحصیل کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں ٹورازم کلچرل پارک، سول ویلی ضلع خوشاب میں ایڈونچر پارک، جوہر ٹائون ضلع لاہور
میں ٹی ڈی سی پی انسٹیٹیوٹ آف ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ، ہرن مینار ضلع شیخوپورہ میں ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر کا قیام شامل ہیں۔جنابِ اسپیکر! امن و عامہ کا قیام معاشرے کی ترقی کے لئے ازحد ضروری ہے۔پولیس کے نظام میں بہتری اور اس کی استعداد کار میں اضافہ حکومت پنجاب کی ایک اہم ترجیح ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں Law & Order کو برقرار رکھنے کیلئے 8 ارب روپے کا خصوصی بلاک رکھا جا رہا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں خود کار فنگر پرنٹس شناخت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا جس کے لئے2 کروڑ 70لاکھ روپے کا بجٹ مہیا کیا جارہا ہے۔دہشت گردی سے
نمٹنے اور اِس مسئلے کے خلاف اپنی اِستعداد بڑھانے کیلئےCTD Lahore میں انفراسٹرکچر کو بہتربنانے پر توجہ دی جائے گی۔ علاوہ ازیں جیل خانہ جات میں مامور عملی کی بہتر پیشہ ورانہ تربیت کیلئے پریزن سٹاف ٹریننگ کالج ساہیوال کیلئے 11 کروڑ روپے مخصوص کیے جانے کی تجاویز بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ محکمہ پولیس کی استعداد میں اضافے کیلئے 565 نئی تعیناتیاں رواں مالی سال میں کی گئیں جن کے لئے 22 کروڑ 20 لاکھ روپے کا بجٹ آئندہ مالی سال میں بھی مختص کیا جارہا ہے۔جناب ِ سپیکر! مساجد،مزارات اور وقف پراپرٹی کے تحفظ کیلئے محکمہ اوقاف کیے لئے اس سال70 کروڑ روپے
کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس میں بی بی پاک دامن مزار کی تکمیل بھی شامل ہے۔ حکومت پنجاب محکمہ اوقاف کے توسط سے 15نئی لائبریریاں15اہم مزارات کے ساتھ قائم کر رہی ہے۔اور لائبریری سکیم ہر مزار تک پھیلائی جائے گی۔اس کے علاوہ مساجد اور مزارات کی توسیع اور تزئین کیلئے 1ارب 26 کروڑ روپے مختص کئے جارہے ہیں۔جنابِ اسپیکر! ہمارے ملک کی ترقی میں اقلیتی آبادی کا کردار تسلیم شدہ ہے۔ حکومت پنجاب نے آئندہ مالی سال میں محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کے ترقیاتی بجٹ میں 400%اضافہ کرکے 2ارب50کروڑ روپے کے فنڈز مختص کئے ہیں۔
اقلیتی آبادی والے علاقوں کیلئے خاص طور پر Development of Model Locality Phase کے نام سے سکیم شامل کی گئی ہے جس کیلئے 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں سرکاری ملازمین کی مشکلات کا بخوبی احساس ہے۔رواں مالی سال میں کرونا کے سبب معیشت کی غیر یقینی صورتِ حال کے پیشِ نظر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہو سکا۔ لیکن مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے دلی خوشی ہو رہی ہے کہ اب چونکہ معاشی حالت میںواضح بہتری نظر آنا شروع ہوگئی ہے لہذا ہماری حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ
تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کیا جائے گا۔تاہم گریڈ 1 سے گریڈ19 کے وہ 7لاکھ 21 ہزارسے زائد سرکاری ملازمین جنہیں پہلے کسی قسم کا کوئی اضافی الائونس پیکیج نہیں دیا گیا ان کی تنخواہوں میں Special Allowanceکی مد میں مزید 25% کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔اِسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10%اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ میں اس معزز ایوان کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ حکومت پنشن کے نظام میں اصلاحات اور بنیادی تبدیلیاں متعارف کروانے کے لئے بھی اقدامات کر رہی ہے جس سے آئندہ آنے والوں برسوں میں حکومت کے پنشن کی مد میں ہونے والے اخراجات میں
قابل ذکر کمی واقع ہو گی۔ملک کا دیہاڑی دار طبقہ ہمیشہ سے ہمارے دل کے سب سے زیادہ قریب رہا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم انھیں نظر انداز کریں۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے ہمارے مزدور بھائیوں کی کم سے کم اجرت 17,500ماہانہ سے بڑھا کر 20,000 ماہانہ مقرر کی جا رہی ہے۔ اسی طرح ہُنر مند اونیم ہُنرمند افراد کی اجرتوں میں 14.28% اضافہ تجویز کیا جا رہا ہے۔جو اُن کے روز مرہ معاملات میں کسی حد تک آسانی پیدا کرے گی