اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور عہدے کو نہیں سمجھا۔جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کہاکہ وفاقی حکومت
کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کے موقف پر اپنا جواب جمع کروانا چاہتے ہیں، شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے بعض افسران پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں، افسران پر لگائے گئے الزامات من گھڑت بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔ وکیل شوکت عزیز صدیقی حامد خان نے کہاکہ اپنے موقف پر میں نے بیان حلفی پر مشتمل جواب جمع کروانے کی کوشش کی، میرے اضافی دستاویزات رجسٹرار افس نے اعتراض لگا کر واپس کر دی۔ جسٹس عمر عطا ء بندیا ل نے کہاکہ درخواست قابل سماعت ہونے کے حوالے سے پہلے اپنے دلائل مکمل کرلیں، اپنے دلائل کو آرٹیکل 211 کیساتھ کیسے جوڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ جج کو ہٹانے سے پہلے انکوائری کو لازمی قرار دینے کے حوالے اپنے موقف پر بھی دلائل مکمل کریں۔ انہوں نے کہاکہ تین سماعتیں ہونے کے باجود ابھی تک درخواست کو قابل سماعت ہونے کے حوالے سے ہی دلائل سن رہے ہیں، چھٹیوں میں تمام پانچ ججز کے اسلام آباد میں ہونے کی گارنٹی نہیں۔ وکیل حامد خان نے کہاکہ انکوائری کے بغیر ریفرنس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تھا، محض ایک تقریر تو ایشو نہیں تھا۔ انہوں نے کہاکہ پہلی سماعت پر ہی میں نے اوپن انکوائری کی استدعا کر دی تھی۔ جسٹس عمر عطا ء بندیال نے کہاکہ کیا کونسل اوپن انکوائری کر سکتی ہے؟۔ وکیل حامد خان نے کہاکہ کارروائی سے پہلے مجھے
اوپن انکوائری کا یقین دلایا گیا تھا۔ وکیل حامد خان نے کہاکہ پہلے بھی کیس میں اوپن انکوائری ہوئی میں پیش ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کونسل نے تسلیم حقائق کی بنیاد پر اوپن انکوائری کو مناسب نہیں سمجھا۔ وکیل حامدخان نے کہاکہ آئین میں انکوائری کا لفظ شامل ہے تو انکوائری کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جج کے پاس تو
سپریم جوڈیشنل کونسل کے علاوہ اور کوئی فورم نہیں۔ انہوں نے کہاکہ کونسل نے کہا میں اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکا، بغیر انکوائری اپنے الزامات کو کسطرح ثابت کرتا۔ جسٹس عمر عطا ء بندیا ل نے کہاکہ شوکت صدیقی نے غیر زمہ داری کا مظاہرہ کیا اپنے عہدے کو نہیں سمجھا،کورٹ آف کنڈیکٹ کے مطابق اپ نے عدلیہ کا دفاع کرنا تھا۔ وکیل حامدخان نے کہاکہ آئی ایس ائی افسران کے رابطوں کے بارے میں تحقیقات کے لیے چیف جسٹس آف
پاکستان کو خط بھی لکھا۔ جسٹس عمر عطا ء بندیال نے کہاکہ آپ نے پہلے تقریر کی بعد میں خط لکھا، جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی کے پیشمان ہونے کیلئے شعر پڑھنے کی کوشش کی تو بھول گئے،سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کھڑے ہو کر مرزا غالب کا شعر سنا دیا ”کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ، ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا“۔ بعد ازاں سماعت جمعہ دن گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔