جنرل رانی کو جنرل کا لقب کیسے ملا،نظر بندی کس طریقے سے ختم کرائی ؟حامد میر کے اپنے کالم میں اہم انکشافات

27  مئی‬‮  2021

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، کالم نگار اور اینکر پرسن حامد میر روزنامہ جنگ میں اپنے آج کے کلام (جنرل رانی ) میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔جنرل رانی کا خاوند غلام رضا ڈی ایس پی تھا۔ خاوند کی وجہ سے وہ تھانیدارنی اور جنرل یحییٰ خان سے تعلق کی وجہ سے جنرل رانی کہلاتی تھیں۔ ایک دفعہ جنرل رانی نے پراچہ صاحب کو بتایا کہ میرے پاس

بھٹو اور یحییٰ کی ملاقاتوں کی ایک ایسی ریکارڈنگ موجود ہے جو ثابت کر سکتی ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کا ذمہ دار نہ مجیب ہے نہ یحییٰ بلکہ صرف بھٹو ہے۔جنرل رانی ہمیشہ یحییٰ خان کو سادہ دل اور بھولا بھالا قرار دیتیں اور کہتیں کہ بھٹو نے مجھے جیل میں اس لئے ڈالا ہے کہ میرے پاس اس کی اور یحییٰ کی گفتگو کی کیسٹ ہے۔ پراچہ صاحب نے جنرل رانی کو تجویز دی کہ ہم رہائی کے بعد آپ کو پنجاب یونیورسٹی میں بلائیں گے۔ وہاں ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کریں گے اور آپ وہاں وہ کیسٹ چلا دیں۔ سب معاملات طے ہو گئے جنرل رانی نے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو اپنی بیٹی کا نمبر بھی دیدیا لیکن رہائی کے بعد جنرل رانی کے مصطفیٰ کھر کے ذریعہ حکومت کے ساتھ معاملات طے ہوگئے اور موصوفہ نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔پتہ نہیں جنرل رانی کے پاس کوئی کیسٹ موجود تھی یا نہیں لیکن ’’عمرِ رواں‘‘ میں یہ واقعہ پڑھنے کے بعد مجھے ایس ایم ظفر صاحب کی کتاب ’’میرے مشہور مقدمے‘‘ یاد آگئی۔ اس کتاب میں ایس ایم ظفر صاحب

نے بتایا ہے کہ انہوں نے جنرل یحییٰ خان کا بھی مقدمہ لڑا اور جنرل رانی کا بھی مقدمہ لڑا ۔جنرل رانی سے وابستہ یادوں کا اختتام بڑا دلچسپ ہے۔ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ جن دنوں جنرل رانی گجرات میں اپنے گھر پر نظربند تھیں تو انہوں نے اپنی نظربندی کو عدالت میں چیلنج کرنے کیلئے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ قومی اسمبلی میں خواتین کی نشست پر الیکشن لڑنا

چاہتی تھیں اور انکی بیٹی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنا چاہتی تھیں۔ایس ایم ظفر نے انہیں پریس کانفرنس سے روک دیا اور نظربندی کے خلاف حکومت کو نوٹس بھیج دیا۔ کچھ دنوں بعد جنرل رانی کو رہائی مل گئی۔ اس دوران ایس ایم ظفر صاحب کی ٹویوٹا کار لاہور ایئرپورٹ سے چوری ہو گئی۔ جنرل رانی لاہور آئیں تو انہوں نے ایس ایم ظفر صاحب کا شکریہ

بھی ادا کیا۔ اس ملاقات کے کچھ دنوں بعد تھانہ سول لائنز لاہور نے ایس ایم ظفر کو اطلاع دی کہ آپ کی چوری شدہ کار برآمد ہو گئی ہے۔انہوں نے اطلاع دینے والے پولیس افسر سے پوچھا کہ میری کار آپ کو کہاں سے ملی؟ انہوں نے جواب دیا یہ کار جنرل رانی کے بیٹے کے پاس تھی۔ ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب کے اس باب کا نام ’’جنرل رانی‘‘ رکھا اور

اس باب کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ جنرل رانی جنرل یحییٰ تک کیسے پہنچی اور میری کار جنرل رانی کے بیٹے تک کیسے پہنچی؟نہ ایس ایم ظفر کو یہ پتہ چلا کہ ان کی کار جنرل رانی کے بیٹے کے پاس کیسے پہنچی نہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو یہ پتہ چلا کہ جنرل رانی کی بھٹو حکومت کے ساتھ کوئی ڈیل ہوئی یا نہیں لیکن ایک بات کا پتہ انہیں ہونا چاہئے۔

جنرل رانی نے کوٹ لکھپت جیل میں اپنی بیٹی کا فون نمبر پراچہ صاحب کو دیا تھا۔اس بیٹی کا ذکر بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کی بائیو گرافی ’’دی پیپلز مہاراجہ‘‘ میں بھی آیا ہے اور بھارتی میڈیا میں آج بھی یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ کیا جنرل رانی کی بیٹی بھارتی پنجاب کی فرسٹ لیڈ ی ہے؟ جنرل رانی جنرل یحییٰ تک کیسے پہنچی اور جنرل رانی کی بیٹی کیپٹن امریندر سنگھ تک کیسے پہنچی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی کتاب پڑھتے ہوئے ذہن میں آئے۔ کوئی ہے جو ان سوالات کا جواب دے؟

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…