اسلام آباد (این این آئی)شناخت ثابت کرنے کی شرط کی وجہ سے ملک میں 30 لاکھ افراد کورونا وائرس سے بچنے والی ویکسین سے محروم ہوسکتے ہیں جن میں بنیادی طور پر غیر رجسٹرڈ مہاجرین شامل ہیں ۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری یا تارکین وطن جنہوں نے یا تو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) یا سرکاری
مہاجرین کی حیثیت حاصل کی ہے وہ ویکسین حاصل کرسکتے ہیں۔پاکستان نے اب تک تقریباً 30 لاکھ افراد کو ویکسین لگائے ہیں ۔پاکستان میں رہائش پذیر 15 لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ مہاجرین، خاص طور پر افغان مہاجرین شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین سے محروم رہیں گے۔اس کے علاوہ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے حالیہ برسوں میں ہزاروں شناختی کارڈ کو مختلف وجوہات کی بنا پر منسوخ کردیا گیا ہے۔پاکستان میں ترکی میں شامی شہریوں کے بعد دنیا کی دوسری بڑی مہاجر آبادی رکھتا ہے جہان تقریبا 28 لاکھ دستاویزی اور غیر دستاویزی افغان مہاجرین موجود ہیں۔پناہ گزینوں میں سے صرف نصف رجسٹرڈ ہیں باقی بغیر دستاویزات کے ساتھ زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہیں جو جنگ زدہ افغانستان سے قریب ہیں۔سندھ میں بھی تقریباً 5 لاکھ افغان مہاجرین رہتے ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق 2002 سے اب تک 38 لاکھ سے زائد مہاجرین افغانستان واپس جاچکے ہیں تاہم کئی تشدد، بے روزگاری اور تعلیم اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان واپس آگئے ہیں۔افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان اور بنیادی طور پر کراچی میں غیر رجسٹرڈ بنگالی، نیپالی اور روہنگیا تارکین وطن کی بڑی آبادی ہے۔موجودہ طریقہ کار کے مطابق شہریوں کو حفاظتی ویکسین لگوانے سے
قبل اپنا شناختی کارڈ نمبر کسی نامزد آفیشل پورٹل پر بھیج کر اندراج کروانا ہوتا ہے۔غیر رجسٹرڈ مہاجرین یا شہریوں کے لیے ویکسین لگانے کے متبادل طریقوں کے بارے میں سوال کے جواب میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا کہ پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈز
حکومت نے جاری کیے ہیں جنہیں ویکسین لگوانے کی اجازت ہے۔مختصر گفتگو میں انہوں نے غیر رجسٹرڈ مہاجرین کے ویکسین لگانے کے متبادل طریقہ کار کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے مطالبہ کیا کہ رجسٹریشن کے عمل کو روک دیا جائے کیونکہ اس سے کووڈ 19 کی ویکسین
سے ‘لاکھوں افراد محروم ہوسکتے ہیں۔پی ایم اے کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے بتایا کہ ہم طویل عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ویکسینیشن کے لیے غیر ضروری حالات لاکھوں افراد کو قطرے پلانے کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ان کے مطابق موجودہ نظام کے تحت لگ بھگ 30 لاکھ مقامی اور مہاجرین حفاظتی ٹیکے
لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں ایک بڑی تعداد نے ابھی تک شناختی کارڈ حاصل نہیں کیا ہے۔قیصر سجاد نے کہا کہ اگر آبادی کے اتنے بڑے حصے کو صرف اس وجہ سے ویکسین نہیں لگایا جاتا ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے تو اس سے ویکسینیشن کے بڑے پیمانے پر فوائد حاصل نہیں ہوسکیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں ہر ایک کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ (شناختی کارڈ) کی اس شرط کو ختم کرے اور ہر ایک کو ویکسین لگائے۔زاہر پشتون جو مہاجرین کی فلاح و بہبود کے لیے وقف ایک غیر سرکاری تنظیم میں کام کرتے ہیں، نے ویکسین کے لیے شناختی کارڈ کی
ضرورت کو ختم کرنے کے مطالبے کی حمایت کی۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے پی او آرز کے حامل افغان مہاجرین کو ویکسینیشن پروگرام میں شامل کیا ہے جو ایک خوش آئند قدم ہے تاہم پاکستان میں نصف مہاجرین رجسٹرڈ نہیں ہیں اور ان کو بھی کورونا سے بچایا جانا چاہیے۔میانمار سے بے گھر ہوئے گروپ کی فلاح و بہبود
کے لیے کام کرنے والے روہنگیا یکجہتی فورم کے سربراہ نور محمد اراکانی نے زاہر پشتون کے خیالات کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ ‘ابھی بھی روہنگیا کے پاس پناہ گزین کے شناختی کارڈ نہیں ہیں، حکومت کو یا تو اس شرط کو ہٹانا چاہیے یا متبادل طریقہ کار کا اعلان کرنا چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ ‘شناختی کارڈ رکھنے والوں میں بھی ویکسینیشن کی شرح بہت کم ہے، کارڈ کی شرط اس شرح کو مزید کم کردے گی۔