اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بجلی چوری کی روک تھام کی ٹیکنالوجی بنانے کا دعویٰ کر دیا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کا سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔اجلاس میں وزارت آئی ٹی کے حکام نے بجلی چوری کی روک تھام کی ٹیکنالوجی بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ٹیکنالوجی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی مدد سے کام کرے گی۔حکام نے
بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کے موجد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) پشاور کے پروفیسر ڈاکٹر گل محمد ہیں، جنہیں وزارت آئی ٹی کے ذیلی ادارے اگنایٹ نے سہولت فراہم کی۔حکام نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی سے 90 فیصد لائن لاسز اور بجلی چوری کی روک تھام کی جاسکتی ہے جبکہ اس ٹیکنالوجی سے صارفین کو پی ٹی سی ایل کی طرح بلنگ کی جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کا تجربہ ایم ای ایس پشاور اور ایم ای ایس راولپنڈی میں کیا گیا جس سے ایک سال میں 35 فیصد بجلی چوری روکی جاسکی۔حکام نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی اسمارٹ میٹرز اور اسمارٹ گرڈ سے بہتر ہے اور نئی حکومت اسے وزارت توانائی کے حوالے کرے تو فائدہ ہوگا۔انہوںنے کہاکہ سابق حکومت میں اس ٹیکنالوجی سے متعلق اس وقت کے وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر مملکت انوشہ رحمٰن کو بریف کیا، مگر انہوں نے کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔انہوں نے بتایا کہ ایک چینی کمپنی اس ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے 4 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھی تاہم چینی کمپنی کی دلچسپی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے بورڈ کے عدم اجلاس کی نذر ہوگئی اور بورڈ کا گزشتہ دو سال سے کوئی اجلاس نہیں ہوا۔قائمہ کمیٹی کے بیشتر ارکان اس نئی ٹیکنالوجی کا سن کر حیران ہو گئے اور کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں تفصیلی بریفنگ مانگ لی۔وزارت آئی ٹی کے ذیلی ادارے اگنایٹ کے
چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ندیم حسین نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ادارہ نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنا رہا ہے اور نئی ایجادات کرنے والوں کو اگنایٹ مالی و تکنیکی سہولت فراہم کرتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ دنیا میں پہلی بار ایسی مشین تیار کر رہے ہیں جو تھوک سے بیماری کا معلوم کر سکے گی ٗ ڈیری کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے نئے منصوبے کیے جارہے ہیں اور ہم اب تک ایک ہزار 915 منصوبوں کی فنڈنگ کرچکے ہیں۔چیئرمین قائمہ کمیٹی روبینہ خالد نے اگنایٹ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جبکہ رکن رحمن ملک نے کہا کہ آپ اپنی پریزنٹیشن میں ان نوجوانوں کو بھی بلائیں جنہیں تربیت دی گئی۔