مقبوضہ بیت المقدس(آئی این پی) اسرائیلی پارلیمنٹ نے اسرائیل کو صیہونی ریاست قرار دینے کیلئے متنازع بل کو حتمی شکل دے دی، مذکورہ بل کو قانونی درجہ ملنے کے ساتھ ہی عرب ممالک کے مسلمانوں کو بے دخل کردیا جائے گا، بل کے نکات تفریق کو ہوا دیں گے اور عربی زبان کی تنزلی کا باعث ہو گا، بل اسرائیل کی جمہوری قدروں کے منافی ہے۔
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق اسرائیل کی پارلیمانی کمیٹی نے اسرائیل کو یہودیوں کے لیے باقاعدہ صیہونی ریاست کا قانونی درجہ دینے کے لیے متنازع بل کو حتمی شکل دے دی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بل کو جلد ہی قانونی درجہ حاصل ہو جائے گا تاہم ناقدین کا موقف ہے کہ مذکورہ بل کو قانونی درجہ ملنے کے ساتھ ہی عرب ممالک کے مسلمانوں کو بے دخل کردیا جائے گا اور اس طرح اسرائیل کی مجموعی آبادی محض 20 فیصد رہ جائے گی۔دوسری جانب اسرائیلیوں نے بل کو امیتازی قرار دیا ہے اور تل ابیب میں ہزاروں افراد نے احتجاجی ریلی نکالی۔اسرائیل کے صدر ریوین ریولین نے بھی بل کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ بل کے نکات تفریق کو ہوا دیں گے اور عربی زبان کی حیثیت میں تنزلی کا باعث بنیں گے۔اسرائیلی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے مابین مشاورت کے دوران زبان سے متعلق مسئلے پر بعض خدشات کو ختم کرنے پر زور دیا گیا لیکن اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیٹوٹ نے خبردار کیا کہ بل اسرائیل کی جمہوری قدروں کے منافی ہے۔واضح رہے کہ رواں ہفتے بل پر ووٹ کا عمل شروع ہو گیا ہے جسے آئینی حدود میں لانے کے لیے بنیادی قانون کا نام دیا گیا، اگر بل پاس ہوجاتا ہے تو اسرائیل کی سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کا امکان ہے۔اسرائیل کے 1948 میں آزادی کے اعلامیے میں قوم کو بطور صیہونی ریاست کو جمہوری ریاست قرار دیا تاہم امکانات ہیں کہ بل کو آئین حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم کے سربراہ عامر فش نے کہا
کہ مذکورہ بل اسرائیلی جمہوری اقدار سے دستبرداری کے مترادف ہے۔انہوں خبردار کیا کہ بل پاس ہونے کی صورت میں کورٹ جائیں گے، بل اقلیتوں کے حقوق اور یہودی آبادیوں کے تعلقات کو سخت نقصان پہنچائے گا۔انہوں نے وضاحت پیش کی کہ خطے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے یہودیت سے زیادہ جمہوری اقدار کو اہمیت دی جائے اور یہ امر قوم اور قومی عمل کا حصہ ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے قسم کھائی تھی کہ اسرائیلی نظریہ جمہوریت انفرادی اور اقلیتوں کے حقوق کو اہمیت دیتا رہے گا۔