پشاور(نیوزڈیسک)خیبرپختونخوا حکومت نے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پی ای سی) منصوبے کے حوالے سے خیبرپختونخوا کو اس کے حقوق سے ایک بار پھر محروم کرنے کیلئے وفاقی حکومت کے عزائم کا سراغ لگایا ہے اور ان مبینہ عزائم کے تحت نہ تو کاریڈور کا خیبرپختونخوا سے گزرنے والا مغربی روٹ تعمیر کیا جا رہا ہے اور نہ ہی قومی اتفاق رائے کے مطابق چاروں صوبوں کو منصوبے میں مساوی حصہ دیا جا رہا ہے جس کا وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا حکومت کے احتجاج پر واضح اعلان کر رکھا تھا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے وفاقی حکومت کے اس فعل کو وعدہ خلافی پر مبنی قرار دیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صوبائی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ ملکر اس ناانصافی کے خلاف بھرپور احتجاجی مہم چلائے گی اور صوبے کے حقوق حاصل کرنے کیلئے اپنے مقصد کے حصول تک ہر متعلقہ فورم کا دروازہ کھٹکھٹائے گی اُنہوں نے کہاکہ یہ ایک بھر پور اور مثالی احتجاج ہو گا اور خبردار کیا کہ جب تک کوریڈور کے حوالے سے خیبرپختونخوا کے تحفظات ٹھوس اور واضح بنیادوں پر دور نہیں کردیئے جاتے اُس وقت تک صوبائی حکومت منصوبے کیلئے فراہم کئے جانے والے تعاون سے دستبردار ہو جائے گی انہوں نے کہاکہ عدم تعاون کے اقدامات کے تحت خیبرپختونخوا میں کوریڈور کیلئے اراضی کے حصول کا عمل بھی روکا جا سکتا ہے یہ فیصلہ بدھ کے روز وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا جس میں دوسروں کے علاوہ سپیکر صوبائی اسمبلی اسد قیصر، صوبائی وزیر معدنیات انیسہ زیب طاہر خیلی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ڈاکٹر حماد آغا، وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سٹرٹیجک پلاننگ یونٹ کے سربراہ صاحبزادہ محمد سعید، خیبرپختونخوا اولسی تحریک کے رہنماﺅں ڈاکٹر سید عالم محسود اور طارق افغان ایڈوکیٹ نے شرکت کی اجلاس میں ڈاکٹرسید عالم محسود نے انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت نے مالی سالوں 2015-17 کیلئے کاریڈور کیلئے مختص کردہ 359 ارب روپے کے بجٹ کا صرف 1.4 فیصد خیبرپختونخوا کے واحد سکی کناری ہائیڈرو پاور منصوبے کیلئے رکھا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں صوبہ پنجاب کیلئے اس بجٹ کا 80.4 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے اجلاس کو بتایا گیا کہ منصوبے کے چھ اہم حصوں کو بھی پنجاب کے مفاد میں تبدیل کیا گیا اور پلاننگ کمیشن سے ملنے والے اصل نقشوں میں ڈیرہ اسماعیل خان۔میانوالی۔ برہان کا مغربی روٹ بھی غائب ہے جبکہ میانوالی کو اسلام آباد سے 10 ارب روپے کی لاگت سے وفاقی حکومت کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت ایک الگ سڑک کے ذریعے ملایاجا رہا ہے ڈاکٹر محسود نے پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی دستاویزات اور دیگر ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ سی پی ای سی منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ 145 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جو پاکستان کو قرضے کی صورت میں دستیاب ہو گا اور اس قرضے کی واپسی چاروں صوبے مل کر کریں گے جبکہ منصوبے میں 500 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری بھی شامل ہے جو اکنامک کوریڈور کے آغاز اور اختتام کے مقامات پر کا شغر اور گوادر میں چینی سرمایہ کار 2024 کے بعد کریں گے اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ رواں مالی سال کے لئے کاریڈور کے 185 ارب روپے کے بجٹ میں سے 95 ارب روپے (51.35 فیصد) منصوبے کے مشرقی روٹ پر خرچ ہوں گے جبکہ باقی 90 ارب روپے (48.65 فیصد) لاہور کو قراقرم ہائی وے اور گوادر سے ملانے کیلئے خرچ کئے جائیں گے دستاویزات میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ میٹرو بس اور فاسٹ ٹریک ریلویز کے منصوبے بھی کوریڈور کا حصہ ہیں اور یہ ٹریک راولپنڈی کو گوجرانوالہ ، لاہور ، ملتان اور فیصل آباد کے ذریعے کراچی سے ملائے گا اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو اس ٹریک سے یکسر خارج کر دیا گیا ہے وفاقی حکومت کے مذکورہ عزائم پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے منصوبے میں کے پی کے مفادات کے خلاف ایک بار پھر تبدیلی کے عمل کو منافقت قراردیتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت نے صوبے کے حقوق غصب کرنے کے خلاف صوبائی حکومت کے احتجاج کے نتیجے میں گزشتہ 28 مئی کو واضح اور علی الاعلان یقین دہانی کرائی تھی کہ کوریڈور کے منصوبے میں چاروں صوبوں کو مساوی حصہ دیا جائے گا مغربی روٹ کو نہ صرف منصوبے میں شامل کیا جائے گا بلکہ اسے ترجیحی بنیادوں پر پہلے تعمیر کیا جائے گا لیکن افسوس کہ پلاننگ کمیشن سے اکھٹے کئے گئے شواہد میں ایسا کچھ نہیں ملا اور وفاقی حکومت کے اس طرز عمل سے صوبائی حکومت اور صوبے کے عوام کو شدید صدمہ پہنچا ہے پرویز خٹک نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت نے کوریڈور سے متعلق معاملات کو خفیہ رکھ کر چھوٹے صوبوں خصوصاً خیبرپختونخوا کو اندھیرے میں رکھا ہوا ہے اُنہوں نے کہا کہ روٹ میں تبدیلی کے خلاف صوبائی اسمبلی کی پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر صوبے کے حقوق کیلئے ایک بار پھر مشترکہ جدوجہد کی جائے گی اور خیبرپختونخوا کے وسائل کسی دوسرے صوبے پر خرچ کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی اُنہوں نے سی پی ای سی کے حوالے سے آئینی اور قانونی دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت تمام صوبائی اکائیوں کی مشاورت اور رضا مندی کے بغیر اس طرح کے اقدامات اُٹھانے کی مجاز ہر گز نہیں ہے۔