اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک بھر میں موجودہ دور میں سب سے بڑے مالی سائبر کرائم میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہورہا ہے اور اس میں زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ شکار بن رہے ہیں۔ روزنامہ جنگ میں اسد ابن حسن کی شائع خبر کے مطابق یہ فراڈ زیادہ تر جمعہ کی شام سے اتوار کی
شام تک ہوتے ہیں کیونکہ بینک بند ہوتے ہیں اور رقوم کی منتقلی آن لائن بینکنگ کے ذریعے ہوتی ہے اور شکار بینک سے ان دو دنوں میں معلومات حاصل کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ کالیں فیصل آباد کے قریب دیہاتوں میں رہائش پذیر فراڈیئے کررہے ہیں۔ وہ اپنے شکار سے موبائل فون پر بات کرکے یہ کہتے ہیں کہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور مجھے ایک کھدائی کے دوران ایک مٹکا ملا ہے جس میں 1902 کے تین کلو سونے کے سکے ہیں،میں کیونکہ غریب ہوں تو آپ مجھے آدھی قیمت دے کر خرید لیں اور آپ اپنی تسلی کے لیے تین چار کوائن کی صراف سے تصدیق کروا لیں۔ تصدیق پر وہ اصلی ثابت ہوتے ہیں اور پھر آدھی قیمت دے کر جب شکار تمام سکے لے کر صراف کے پاس جاتا ہے تو ان سکوں میں 3/4سکے ہی اصلی ہوتے ہیں۔باقی سب نقلی سکے ہوتے ہیں اس طرح وہ کئی لاکھ روپے گنوا چکا ہوتا ہے۔ فیصل آباد کے ایک گائوں چک نمبر 95تھانہ گودوہ کے ایس ایچ او نے ایک بورڈ بھی نصب کر
رکھا ہے کہ لوگ ہوشیار رہیں۔ دوسرا فراڈ حال ہی میں ریٹائرڈ ملازمین سے کیا جاتا ہے کہ ان کو نوکری اور بھاری تنخواہ کا لالچ دے کر کسی ہسپتال میں سرمایہ کاری کے بعد ان کی رقوم سے محروم کیا جارہا ہے۔ کئی مرتبہ ان شکار ملازمین کو سکھر بلا کر جوئے کا لالچ دے کر
ان کی پوری جمع پونجی ہتھیا لی جاتی ہے۔ تیسرا فراڈ کسی بھی شکار کے فیس بک یا واٹس اپ پر میسج بھیجتے ہیں کہ میں ایک زیر عتاب شہزادی ہوں اور میرے پاس میرے والد کے کروڑوں ڈالر اور کئی کلو سونا ہے۔ اس کے بعد فون پر بات ہوتی ہے کہ کراچی میں لانچ کے ذریعے یا ایئرپورٹ پر سونا پہنچ جائے گا اور 50لاکھ کا انتظام کرلیں اور لوگ جھانسے میں آجاتے ہیں۔ سائبر کرائم کراچی میں ایک ایسی ہی انکوائری جاری ہے جس میں اسی طریقے سے ایک خاتون سے اڑھائی کروڑ کا فراڈ ہوا۔