اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سر آئزک نیوٹن کا شمار مقبول سائنسدانوں میں ہوتا ہے، انہوں نے سائنسی دنیا میں بہت سے بنیادی قوانین متعارف کروائے جن میں حرکت، کشش ثقل اور روشنی کے قوانین شامل ہیں. سائنس میں ‘قانون’ اس خیال کو کہا جاتا ہے جو کائنات میں ہر جگہ ثابت ہو لیکن اگر عام انسان کی زبانی سنی جائے تو اس کا یہ کہنا ہے کہ نیوٹن کا ایک قانون “قانون” کے درجے سے ہٹ چکا ہے۔
جبکہ سائنسدانوں کی اکثریت اس بات پر متفق نہیں. ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم ایک پتھر کو رسی سے باندھ کر اپنے ہاتھ کے بل گھمائیں تو رسی جتنی چھوٹی ہوگی وہ پتھر ہاتھ کے گرد اتنا تیز چکر لگائے گا جب کہ اگر ہم اتنی ہی قوت دیتے ہوئے رسی لمبی کردیں تو پتھر چکر تو مکمل کرے گا لیکن آہستگی سے، اس بات کو نیوٹن نے ایک سائنسی فامولے کی مدد سے سمجھایا، جس کے مطابق اگر ہم ایک جتنی قوت دیتے ہوئے ایک پتھر کو گھمائیں تو رسی جتنی لمبی ہوگی وہ پتھر اتنا آہستہ گھومے گا. نیوٹن نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب رسی چھوٹی ہوتی ہے تو پتھر کے ایک چکر کا حجم بھی چھوٹا ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ تمام قوت لگا کر تیزی سے یہ چکر مکمل کرلیتا ہے جبکہ جیسے جیسے رسی لمبی ہوتی ہے تو گردشی دائرے کا حجم بھی بڑھتا ہے اور پہلے جتنی قوت اب پتھر کو اسی رفتار سے گھمانے کے لیے ناکافی ہوتی ہے لہذا پتھر آہستہ سے اپنا چکر مکمل کرتا ہے. زمین پر پانی کہاں سے اور کیسے آیا؟ نیوٹن نے جب زمین پر رہتے ہوئے اس بات کا خیال کیا اور پھر نظام شمسی کے سیاروں کی طرف دیکھا تو سیاروں کی سورج کے گرد چکر لگانے کی رفتار اس کے خیال سے مطابقت رکھتی تھی اور یوں نیوٹن نے زمین پر رہتے ہوئے نظام شمسی کے سیاروں کے بارے میں ہمیں بہت کچھ بتایا. سیاروں کی یہی حرکات دیکھتے ہوئے نیوٹن کو خیال آیا کہ سورج کی سیاروں پر گرفت کس ‘رسی’ کی وجہ سے ہے۔
اس طرح نیوٹن نے “کشش ثقل” دریافت کی اور بتایا کہ کشش ثقل ہر مادے کی ذاتی خصوصیت ہے اور اس کی مقدار مادے کی مقدار پر منحصر ہوتی ہے. آج ہم جانتے ہیں کہ جس طرح ہر نظام شمسی کے مرکز میں ایک ستارہ ہوتا ہے جس کے گرد محور باقی سیارے ہوتے ہیں اسی طرح ہر کہکشاں کے مرکز میں بلیک ہول پایا جاتا ہے جس کے گرد اس کہکشاں میں موجود تمام ستارے گردش کر رہے ہوتے ہیں۔
لیکن جب 1980 میں ‘ویرا روبن’ نامی سائنسدان نے اندرومیڈہ کہکشاں جو کہ ہماری کہکشاں سے تقریباً 22 لاکھ نوری سال دور ہے، کو دیکھا تو کچھ حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے. مندرجہ بالا ذکر کیے گیے نیوٹن کے قانون کے مطابق تو ایک کہکشاں میں جو ستارہ مرکز سے قریب تر ہوگا اسے تیز اور جو سب سے دور ہوگا اسے آہستہ گردش کرنی چاہیے، لیکن ویرا روبن نے اندرومیڈہ کہکشاں میں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔
انہوں نے دیکھا کہ اس کہکشاں کے تمام ستارے ایک ہی رفتار سے مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں. یہ دیکھنے کے بعد انہیں اپنے اس مشاہدے پر شک ہوا تو انہوں نے بہت سی دوسری کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا اور تمام میں یہ نتیجہ حاصل ہوا، اپنے اس مشاہدے سے ویرا روبن نے ثابت کیا کہ ہر کہکشاں میں جو مادہ ہم دیکھ رہے ہیں اس کے علاوہ بھی کسی دوسری طرح کا مادہ مقدار میں 6 گنا زیادہ موجود ہے۔
جو کہ کہکشاں کے مرکز سے لے کر کنارے پر موجود ستارے تک کو ایک ہی رفتار سے مدار میں چلا رہا ہے اور پھر انہوں نے ایک مادے کی نشاندہی کی، جسے “ڈارک میٹر” کا نام دیا گیا. واضع رہے کہ فلکیات میں اگر کسی بھی چیز کے ساتھ “ڈارک” کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سائنس اس چیز کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی اور نہ ہی اس کا کبھی مشاہدہ کیا گیا ہے۔
لیکن اس کے اثرات کائنات میں ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں. اب اکثر لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ جب سائنس کو اس مادے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں اور نہ ہی کبھی اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے تو پھر اس کی دریافت کیسے کی گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ڈارک میٹر کی دریافت ایک تو اس کے کہکشاں کی محوری گردش کو دیکھ کر ہوئی اور دوسرا اس مادے کی بھی اپنی کشش ثقل ہے جو کہ معلوم کی جا چکی ہے. ڈارک میٹر کی دریافت اور کہکشاں میں ستاروں کی گردش کے مشاہدے کے بعد یہ بات کہنا بلکل بھی درست نہیں۔
نیوٹن کا قانون غلط ہوگیا، بلکہ ادھر بھی نیوٹن کا وہی قانون ثابت ہوگا، اگر ہم ڈارک میٹر کو نکال دیں تو اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی سائنسی قانون کو بنا کسی ٹھوس ثبوت کے غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا. ایسا نہیں ہے کہ ویرا روبن سے پہلے ڈارک میٹر کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا، بلکہ دوسرے سائنسدانوں نے اس مادے کی حقانیت کو دوسری تکنیک سے معلوم کیا تھا، جبکہ کہکشاں کی محوری گردش کو دیکھ کر یہ معلومات پہلی دفعہ ویرا روبن نے 1980میں شائع کی تھیں. ۔