اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) آج کے جدید دور میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جن کا ماننا یہ ہے کہ چاند اور سورج کو گرہن اس وجہ سے لگتا ہے کیونکہ ان کا خدا ناراض ہے یا پھر یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے۔ یہ قصّے کہانیاں صدیوں سے چلی آرہی ہیں جن کی ابتداء ایسے کم فہم افراد نے کی جن کا مقصد لوگوں پر اپنے جھوٹے علم کی دھاک بٹھانا تھا۔ یہ سلسلہ سالوں تک جاری رہا ۔
لیکن جیسے ہی سائنسی دور کا آغاز ہوا تو سائنسدانوں نے قمروشمس کو گرہن لگنے کی حقیقی وجہ کی تلاش شروع کردی۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین سورج کے اور چاند زمین کے گرد گردش کررہا ہے۔ 29 دن کے بعد چاند زمین کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ ہر ماہ چاند اپنے چکر کے دوران سورج اور زمین کے درمیان سے گزرتا ہے اور اس ہی طرح آدھے چکر میں زمین سورج اور چاند کے درمیان میں ہوتی ہے۔ پھر تو ہر ماہ سورج اور چاند گرہن واقع ہونے چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر سال میں 4 یا 5 گرہن ہی ہوتے ہیں۔ عام عوام اس بات کو کسی خاطر نہیں لاتی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے لیکن سائنسدانوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر بات پر سوال کرتے ہیں اور پھر اسی پر تحقیق کرکے اصل وجہ معلوم کرتے ہیں۔ ہر ماہ گرہن صرف ایک صورت میں واقع ہوسکتا تھا کہ اگر چاند کا مدار سورج اور زمین کے مدار کے سیدھ میں ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے۔ قمری مدار زمینی مدار سے 5 ڈگری کے زاویے پر جھکا ہوا ہے۔ اجسام کے مداروں کے اس جھکاؤ کو فلکیاتی اصطلاح میں “اربیٹل اِنکلینیشن” کہتے ہیں۔ اس طرح یہ دونوں مدار صرف دو مقام پر ملتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ اگر نیا چاند (جب چاند سورج اور زمین کے بیچ ہوتا ہے) ان جگہوں پر پیش آئے تو وہ سورج گرہن ہوگا اور اسی طرح پورا چاند (جب زمین سورج اور چاند کے بیچ ہوتی ہے) ان جگہوں پر پیش آئے تو وہ چاند گرہن کا باعث بنے گا۔
ان دونوں مقام کو فلکیاتی اصطلاح میں “نوڈز” یعنی دونوں مداروں کی ملاپ کی جگہ کہا جاتا ہے۔ رواں صدی کا طویل ترین چاند گرہن آج ہوگا یہ بات واقعی حیرت آنگیز ہے کہ سائنسدانوں کو پہلے سے کس طرح پتا چلتا ہے کہ چاند یا سورج گرہن زمین پر ان مقامات پر دیکھا جا سکے گا اور اس وقت دیکھا جائے گا۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ ہم ریاضی کی مدد سے باآسانی معلوم کر سکتے ہے ۔
چاند، سورج، سیارے اور ستاروں اس وجہ اپنے مدار میں کدھر موجود ہیں۔ لیکن 1503 میں امریکا کے لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا اور وہ لوگ عیسائی خدا پر یقین رکھتے تھے۔ 30 جون 1503 کو امریکا کو دریافت کرنے والے کرسٹوفر کولمبس اپنے چوتھے امریکی سفر میں جمیکا، جو کہ مشرقی امریکا میں ایک جزیرہ ہے، میں اپنے ساتھیوں نے ساتھ پھنسے ہویے تھے کیونکہ ان کی کشتیوں کو سمندری کیڑوں نے چھلنی کردیا تھا۔
وہاں کے لوگوں نے انہیں 6 مہینوں تک کھانے کے ساتھ ساتھ رہائش بھی فراہم کی لیکن اس کے بعد ایک دم سے انھوں نے حالات تنگ کردیے۔ چونکہ کرسٹوفر ایک ملاح بھی تھے لہذا وہ اپنے ساتھ جنتری بھی لے کر چلتے تھے جس کی مدد سے اس وقت کے ملاح ستاروں سے وقت اور سمت کا تعین کرتے تھے۔ اس جنتری کی مدد سے کرسٹوفر نے حساب لگایا کہ جلد ہی مکمل چاند گرہن آنے والا ہے۔
اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے عام عوام میں اس بات کا اعلان کردیا کہ عیسائی خدا تم لوگوں کی اس حرکت سے بہت ناراض ہے اور وہ اپنے غصے کا اظہار یکم مارچ، 1504 کو چاند کی صورت میں بدلاؤ لا کر کرے گا۔ 29 فروری کی رات غروب آفتاب کے بعد تمام لوگ اکھٹے ہوئے اور چودویں کے چاند کو تیز چمکتا ہوا دیکھنے کے بجاے سرخ گیند نما دیکھا تو وہ سب ڈر گئے اور کرسٹوفر کے تابع ہوگئے۔
اس کو کرسٹوفر کی خوش قسمتی ہی کہیں گے کہ انہوں نے قدرت کا استعمال کرتے ہویے اپنی جان بچائی لیکن ایسے ہی واقعات کی وجہ سے بہت سی دوسری منگھڑت باتیں سامنے آئیں۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ حاملہ عورت کو چاہیے کہ سورج یا چاند گرہن کے وقت لوہے کی کسی بھی تیز چیز، جس میں کینچی، چھری، وغیرہ شامل ہیں، کا استعمال نہ کرے ورنہ پیدا ہونے والا بچہ معذور پیدا ہوگا۔ اس بات میں بھی بالکل حقیقت نہیں ہے۔
اس چیز کو غلط ثابت کرنے کے لئے کبھی کسی عام انسان نے تجربہ بھی نہیں کیا کیونکہ ہر کسی کو اپنے بچے پیارے ہوتے ہیں لیکن سائنسدانوں نے یہ سب تجربات جانوروں سے لے کر انسانوں تک کئے ہوئے ہیں۔ معذور بچے کا پیدا ہونا صرف ایک اتفاق یا کسی اور جینیاتی بیماری کا نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن ایک فلکیاتی عمل کا انسانی زندگی سے کسی قسم کا کوئی تعلق کبھی نہیں ہوسکتا ہے۔
مگر سورج گرہن کے وقت بنا کسی فلٹر کہ عام آنکھ سے سورج کی طرف دیکھنے سے آنکھیں ہمیشہ کے لئے ضائع ہو سکتی ہیں لہذا سورج گرہن کو دیکھنے کے لئے فلٹر کا استعمال بہت ضروری ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اکثر لوگ ویلڈنگ کا شیشہ یا ایکس رے کا کاغذ کا استعمال کرتے ہیں جو کہ بہت زیادہ خطرناک ہے اور اس سے آنکھوں کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔
آخر آج کا بلیو مون سرخ کیوں ہوگا؟ اس سال میں دو چاند گرہن اور تین سورج گرہن ہوں گے جن میں سے ایک سورج گرہن اور ایک چاند سال کے شروع میں واقع ہو چکا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جولائی اور اگست 2018 میں کل 2 سورج گرہن اور ایک چاند گرہن واقع ہوگا۔ 13 جولائی کو جزوی سورج گرہن واقع ہوا جو کہ انٹارٹیکا اور جنوبی امریکا کے علاقوں میں دیکھا گیا۔
آج رات مکمل چاند گرہن دیکھا جائے گا یعنی چاند زمین کے سائے میں مکمل طور پر موجود ہوگا۔ اس چاند گرہن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ گرہن 6 گھنٹے اور 4 منٹ طویل ہوگا اور اسی کے ساتھ ہی یہ گرہن اس صدی کا سب سے طویل چاند گرہن ہوگا جو کہ پورے پاکستان سمیت سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات اور افریقہ کے علاقوں میں پاکستانی وقت کہ مطابق رات 10 بجکر 14 منٹ پر شروع ہوگا ۔
اور اس کا اختتام صبح 4 بجکر 28 منٹ پر ہوگا۔ اس کے علاوہ آج رات آسمان میں چاند کے علاوہ سیارہ مریخ بھی قابل دید ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ سورج کہ گرد تمام سیاروں نے مدار گول نہیں ہیں بلکہ بیضوی شکل کے ہیں لہذا آج رات سیارہ مریخ اپنے مدار میں زمین سے قریب ترین فاصلے پر ہوگا جس کی وجہ سے وہ زیادہ روشن دکھائی دے گا۔ کسی سیارے کا اپنے مدار میں زمین سے قریب ترین فاصلے پر آجانے کو فلکیاتی زبان میں “اپوزیشن” کہتے ہیں۔
مریخ کی طرح مئی میں سیارہ مشتری کی بھی اپوزیشن ہوئی تھی۔ ویسے تو ہم آج کل اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں لیکن ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں سے کچھ وقت نکالیں اور قدرت کو ملاحظہ کریں جو کہ نت نئے انداز لئے ہے۔ اس سے نہ صرف جسمانی اعصاب کو راحت ملے گی بلکہ دلی تسکین بھی حاصل ہوگی۔ چاند سرخ کیوں ہوتا ہے؟ سال میں متعدد بار چاند اپنے مدار میں اس حالت میں آ جاتا ہے۔
زمین سورج اور چاند کے عین بیچ میں آ جاتی ہے جس کی وجہ سے چاند پر سورج کی ذرا بھی روشنی نہیں پڑتی نتیجتا اس کی سطح تاریک ہو جاتی ہے لیکن پھر چاند سرخ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کی روشنی جب زمینی فضا میں سے گزرتی ہے تو نیلی روشنی کی نسبت لال رنگ کی روشنی زیادہ مڑ جاتی ہے اور چاند جزوی چاند گرہن کے وقت لال اور پھر مکمل چاند گرہن کے وقت پورا سیاہ ہو جاتا ہے۔