اس سے قبل اس شیارچے کے بارے میں خیال تھا کہ یہ ایک دمدار ستارہ ہے۔ اس سیارچے کو ‘اے 2017 یو ون’ (A/2017 U1) کا نام دیا گیا ہے۔سیارہ تلاش کریں اور اپنی مرضی کا نام دیںزمین جیسے حجم والے سات سیاروں کی دریافت سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارچے کا قطر 1300 فٹ ہے۔اس سیارچے کو سب سے پہلے ہوائی میں واقع ٹیلی سکوپ کے ذریعے دریافت کیا گیا۔ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سیارچہ لیرا نامی ستاروں کے جھرمٹ کی جانب سے ہمارے نظام شمسی میں 25.5 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے داخل ہوا۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے سے قبل یہ باقی سیاروں کے قریب سے نہیں گزرا۔ سورج کی کشش ثقل کے باعث یہ سیارچہ زمین سے 24 ملین کلو میٹر کے فاصلے سے گزرا۔ماہر فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سیارچہ 44 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے واپس روانہ ہو گیا ہے اور اب یہ پگاسس نامی ستاروں کے جھرمٹ کی جانب سفر کر رہا ہے۔
ہوائی کے انسٹی ٹیوٹ فار ایسٹرانومی کے ڈاکٹر راب کا کہنا ہے ‘اس سیارچے کے سفر کی وضاحت کرنا مشکل ہے۔’امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ڈاکٹر ڈیوڈ فرنوکیا کا کہنا ہے جو سفر اس سیارچے نے اختیار کیا ہے وہ نہایت مشکل ہے اور میں نے ایسا سفر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں یقین
سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سیارچہ اب ہمارے نظام شمسی سے باہر کی جانب جا رہا ہے اور یہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔’ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پہلے بات ہوتی رہی ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر ایسے سیارچے یا دمدار ستارے موجود ہیں لیکن اس کا مشاہدہ پہلی بار کیا گیا ہے۔