اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) ہراساں کیے جانے کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستانی افراد کو زیادہ تر فیس بک پر ہراساں کیا جاتا ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعے ہراساں کیے جانے والے افراد کو مدد فراہم کرنے والی پہلی نجی تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی ایف آر) نے اپنی پہلی 4 ماہی رپورٹ جاری کردی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ تنظیم کو موصول ہونے والی شکایات کے مطابق ہراسگی کا سامنا کرنے والے اکثر افراد کا تعلق فیس بک صارفین سے ہے۔
تنظیم کو لوگوں کو بلیک میل کرنے والے متعدد جھوٹے فیس بک اکاؤنٹس کی شکایت موصول ہوئی۔تنظیم کو لوگوں کی جانب سے ناپسند پیغامات ملنے اور اکاؤنٹس ہیک کیے جانے کی شکایت بھی موصول ہوئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ تنظیم کو یکم دسمبر 2016 سے اب تک اپنے قیام کے پہلے 4 ماہ کے دوران 513 افراد کی شکایات موصول ہوئیں۔تنظیم کو یہ شکایات بذریعہ فون، فیس بک میسیجز اور ای میل کے ذریعے موصول ہوئیں، جن میں سے زیادہ شکایات فیس بک پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے تھیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ تنظیم کو یکم دسمبر 2016 سے 31 مارچ 2017 تک 535 شکایتی کالز موصول ہوئیں، سب سے زیادہ کالز جنوری میں وصول کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق شکایتی کال کرنے والوں میں 63 فیصد خواتین جب کہ 37 فیصد مرد تھے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روایات کو توڑتے ہوئے مرد حضرات کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایات اچھا قدم ہے، جس سے بلیک میلنگ کے شکار مردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ہراساں کیے جانے کی 42 فیصد شکایات صوبہ پنجاب، 17.8 فیصد سندھ،4.7 فیصد خیبرپختونخوا جب کہ1.3 فیصد شکایات بلوچستان سے موصول ہوئیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے نیشنل ریسپانس سینٹر فار سائبر کرائم ( این آر سی سی سی) کے محدود وسائل کے باعث سائبر کرائم کے
بہت ہی کم کیسز رجسٹرڈ کیے جاسکے۔ڈی ایف آر نے اپنی رپورٹ میں ایف آئی اے کے عملے کو حساس تربیت دینے کے علاوہ خواتین عملے کی بھرتی کی تجویز بھی دی۔خیال رہے کہ ڈی ایف آر پاکستان کا پہلا نجی ادارہ ہے، جو آن لائن ہراسمنٹ کے شکار افراد کو مدد فراہم کرتا ہے۔اس ادارے کا قیام گزشتہ برس دسمبر میں عمل میں آیا، جب کہ ادارے کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ بھی ادارے کی پہلی رپورٹ ہے۔