اسلام آباد ( نیوز ڈیسک) سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ایتھوپیا میں ساڑھے چار ہزار برس پہلے دفن کیے گئے ایک شخص کے باقیات سے جو ڈی این حاصل کیا گیا ہے اس سے افریقہ کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے شواہد ملے ہیں۔یونیورسٹی آف کیمبریج کی قیادت میں تحقیق کرنے والی ایک بین الاقوامی ٹیم نے پہلی بار قدیم افریقی (جنہیں موتا کے نام سے جانا جاتا ہے) کے جینوم ( مجرد لونیوں کا مجموعہ) کو مکمل طور پر ترتیب دیا ۔محققین کے مطابق مذکورہ شخص کے جینوم کے مادوں کا دور جدید کے افریقیوں سے موازنہ کرنے پر اس نظریے کو تقویت ملی کہ تقریبا تین ہزار برس پہلے مشرق وسطی سے شمالی افریقہ کی جانب بڑے پیمانے پر لوگوں نے ہجرت کی تھی۔پتھر کے زمانے میں یوروایشیئن کاشتکاروں کی افریقہ کی جانب بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا نظریہ پہلے ہی سے پایا جاتا ہے لیکن اس سے متعلق شواہد کی کمی تھی۔اس سے قبل 2011 میں آثار قدیمہ کے ماہرین نے مقامی لوگوں کی مدد سے ایک غار دریافت کیا تھا جس میں، موتا نامی، ایک آدمی کی ہڈّیاں تھیں۔ اس شخص کی موت 2 500 قبل مسیح ہوئی تھی اور محققین نے انھیں ہڈیوں سے اس ڈی این اے کو حاصل کیا تھا۔اسی ڈی این اے کا جدید نمونوں سے موازنہ کر کے سائنس دانوں نے گذشتہ ساڑھے چار ہزار برس میں ہوئی جینیاتی تبدیلیوں کا پتہ لگایااس سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ شمالی افریقہ کی موجودہ تقریباً ایک چوتھائی آبادی کے آبا واجداد کا تعلق یورو ایشیئن نسل سے ہے ¾مغربی اور جنوبی افریقہ میں بھی پانچ فیصد ایسے لوگ ہیں جن کے جینوم یورو ایشیئن سے ملتے جلتے ہیں۔محققین کی دریافت سے ’یوروایشین بیک فلو‘ کے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے جس کے مطابق تقریبا تین ہزار برس قبل مشرق قریب اور انتولیہ کے لوگوں نے افریقہ کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی تھی۔ اسے ریورس مائیگریشن بھی کہتے ہیں یعنی تقریبا ایک لاکھ برس قبل سب سے پہلی بار افریقہ سے انسان دوسرے علاقوں میں پہنچے جس کے بعد نقل مکانی کا یہ واقعہ پیش آیا تاہم اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی نقل مکانی کی وجوہات کے متعلق ابھی تک کوئی صحیح معلومات نہیں ۔