اسلام آباد (نیوز ڈیسک) آسمان پر رات گئے بننے والے روشنیوں کے خوبصورت نظارے سے قطبی علاقوں میں رہنے والے لوگ واقف ہیں۔ تاحال اس پراسرار ”لائٹ شو“ کو بھی ان نہ حل ہونے والے معموں کی فہرست میں رکھا گیا تھا جس میں برمودا ٹرائی اینگل اور اڑن طشتریوں کی حقیقت بھی شامل ہے۔ اب یہ لائٹ شو اس فہرست سے خارج ہوجائے گا کیونکہ ماہرین نے ان پراسرار روشنیوں کے پیچھے موجود معمے کو حل کرلیا ہے۔یہ روشنیاں ایکویٹر پر رہنے والے ممالک کو ساٹھ سے ستر ڈگری جکے زاویئے پر دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے حوالے سے عام مفروضہ یہ ہے کہ یہ دراصل وہ چارجڈ عناصر ہوتے ہیں جنہیں ہم الیکٹرون اور پروٹونز کے نام سے جانتے ہیں۔ جوں جوں ایکویٹر سے قطبی کناروں کی جانب بڑھا جائے، ان روشنیوں کے دکھائی دینے کی رفتار بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ان روشنیوں کو پراسرار بنانے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عام طور پر قطبی علاقوں میں دکھائی دینے والی روشنی آسمان پر یونانی رسم الخط کے لفظ ”تھیٹا “ سے ملتی جلتی شکل کی ہوتی ہیں۔ اب ماہرین تحقیقات سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دراصل یہ روشنیاں اور ان کی یہ خاص شکل کرہ ارض کو گھیرے میں لئے ہوئے مقناطیسی میدان کا نتیجہ ہے۔
یہ مقناطیسی فیلڈ پوری زمین کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ اس کے سفر کا راستہ بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ کسی عام مقناطیس کا ہوتا ہے یعنی کہ قطبی کناروں پر طاقتور ترین اور درمیانی علاقے میں کمزور۔ یہ مقناطیسی فیلڈ زمین کی بقاکیلئے بے حدضروری ہے کیونکہ یہ سولر ونڈ سے مختلف اجزا کھینچتی ہے اور اسی کی وجہ سے زمین کا ماحول تخلیق پایا ہے۔ مریخ اور زمین پر بڑا فرق اسی مقناطیسی فیلڈ کی غیر موجودگی ہے جس کی وجہ سے یہاں آبادی کا وجود نہیں ہے۔اس مقناطیسی فیلڈ میں سے کچھ لکیریں تو پوری ہوتی ہیں جو کہ ایک قطبی کنارے سے نکل کے دوسرے تک جاپہنچتی جبکہ کچھ کا نقشہ ادھورا ہوتا ہے۔ یہی ”بروکن لائنز“ ہی دراصل روشنیوں کے اس کھیل کا باعث ہوتی ہیں۔ ان بروکن لائنز کی وجہ سے اس علاقے کی فضا میں موجود خوربینی ذرات چارج ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دکھائی دینے لگتے ہیں۔
آسمان پر رات گئے بننے والی روشنیوں کا معمہ حل
9
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں