لاہور (نیوز ڈیسک) گزشتہ دنوں نئی دہلی سے خبر آئی تھی جہاں پر ایک ریسٹورنٹ نے پزا ڈیلوری کیلئے ڈرون ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ریستوران کو تواس جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے روک دیا گیا تاہم حقیقت یہ ہے کہ ڈرون اس وقت کھیل کے میدان سے لے کے دشمن کی کمین گاہوں تک ہر مقام تک رسائی کیلئے استعمال ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں آنے والی جدید ترین ٹیکنالوجی اس سے بھی زیادہ شاندار ہے۔ ریموٹ کنٹرول ڈرونز کا آفیشل نام ”ان مینڈ ایئریئل وہیکل “ ہے جسے مختصراًیو اے وی بھی کہا جاتا ہے۔یہ تمام ڈرونز ریموٹ کنٹرول ٹیکنالوجی کے تحت کام کرتے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی کافی پرانی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے تحت تیار کیا گیا پہلا ملٹری ڈرون پریڈیٹر ایم کیو ون تھا جسے 1994میں تیار کیا گیا تاہم بیس برس میں یہ ریموٹ کنٹرول ٹیکنالوجی غیر یقینی حد تک بدل چکی ہے۔ اب امریکہ کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ڈرون کی لمبائی39میٹرز ہے اور یہ ایک مشن کے دوران37سو کلومیٹر کے قریب سفر کرسکتا ہے اور یہ بحری جہازوں کی نشاندہی بھی کرنے کے قابل ہے۔ یہ ڈرونز سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور جی پی ایس ٹیکنالوجیز کی مدد سے کنٹرول روم میں موجود پائلٹس کے ذریعے کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ پائلٹ کی جانب سے موصول ہونے والے احکامات کو ڈی کوڈ کرنے میں ڈرون کو پانچ منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ اس دوران پائلٹس ایک خاص کیمرے کی مدد سے ڈرون کی نقل و حرکت کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ ڈرون کم و بیش اسی ٹیکنالوجی کے تحت کام کرتے ہیں، جس کے تحت کوئی بھی ریموٹ کنٹرول ڈیوائس کام کرتی ہے تاہم یہ انتہائی فاصلے پر ہونے کے سبب اس ٹیکنالوجی کو موثر بنانے کیلئے انتہائی طاقتور انفراریڈ شعاو¿ں کا استعمال کرتے ہیں۔
اب ڈرون ٹیکنالوجی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے ماہرین ڈرون بوٹس بھی بنا چکے ہیں جو کہ خود کار نظام کے تحت کام کرتی ہیں۔ اسی طرح اب زیر آب کام کرنے کیلئے آبدوز نما ڈرون بھی تیار کئے جاچکے ہیں جو کہ سطح سمندر سے91میٹر نیچے ہوتے ہیں۔ یہ اگرچہ اسلحے سے پاک ہوتی ہیں تاہم اس ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنانے کے امکان ہے کہ عنقریب اسلحے سے لیس ڈرون آبدوزیں بھی ترقی یافتہ ممالک کے بحری بیڑوں میں شامل ہوجائیں گی۔
ڈرون کیسے کام کرتے ہیں؟
8
مئی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں