اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) سوڈے کی بوتلیں اور دیگر پلاسٹک کی اشیا پولیتھیلین ٹریپیتھیلیٹ سے بنی ہوتی ہیں جسے مختصراً پیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس بوتل کو اس مواد سے تیار کئے جانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بار استعمال کے بعد پھینک دی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ خواہ انہیں استعمال کے بعد دوبارہ استعمال کریں یا پھر پہلی بار استعمال کے بعد ہی پھینک دیں، دونوں صورتوں میں اس کے ختم ہونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں تاہم ان کا خاتمہ بھی ویسے نہیں ہوتا ہے جیسا کہ دیگر اشیا کا ہوتا ہے جو کہ گلنے سڑنے کے عمل کے بعد قدرتی کھاد میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ماحول میں موجود بیکٹیریاز جس طرح دیگر اشیا کو ماحول میں انضمام کے قابل بنا دیتے ہیں، اس طرح سے وہ پلاسٹک کو اس قابل نہیں بنا سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پلاسٹک سورج کی روشنی میں پڑے رہنے سے سخت سے سخت تر ہوجاتی ہے۔ ماحولیاتی دباو¿ اور بیرونی اشیا کی جانب سے پیدا کیا جانے والا دباو¿ انہیں چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کردیتا ہے اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب اس کے ذرے اتنے چھوٹے ہوجاتے ہیں کہ یہ دکھائی دینا بھی بند ہوجاتے ہیں تاہم یہ پھر بھی ماحول میں موجود رہتے ہیں۔
اس صورتحال کے سبب ماحول میں پلاسٹک کی بڑھتی ہوئی مقدار کے سبب صنعتی دنیا کے ماہرین نے بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک متعارف کروائی ہے جسے ماحول دوست پلاسٹک بھی کہا جاتا ہے۔ کیمیائی ماہرین کے مطابق کسی بھی چیز کے بائیو ڈی گریڈ ہونے کے تین طریقے ہوتے ہیں۔ پرائمری طریقہ جس میں مذکورہ شے کی کیمائی خوبیاں تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ چیز اپنی ساخت کھو بیٹھتی ہے۔دوسرے طریقے کو انوائمنٹلی ایکسپیٹ ایبل کہا جاتا ہے جس میں ایسے طریقے جو کہ ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں شامل ہیں اور الٹی میٹ طریقہ جس میں مذکورہ شے مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے اور یا تو سادہ مالیکیولز میں تبدیل ہوجاتی ہے یا پھرآکسیڈائزڈ ہوجاتی ہے جیسا کہ پانی، نائٹروجن وغیرہ۔ دلچسپ اور خطرناک حقیقت یہ ہے کہ بائیوڈی گریڈ ایبل پلاسٹک ان میں سے کسی ایک بھی طریقے سے ختم نہیں ہوتی ہے اور اس کا خاتمہ جن طریقوں سے کیا جاتا ہے، وہ اصل پلاسٹک سے زیادہ خطرناک ہے۔
ماہرین اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ بائیوڈی گریڈ ایبل کے نام پر بیچی جانے والی مصنوعات بذات خود پلاسٹک کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ دراصل بائیوپلاسٹک کی ڈی گریڈایشن میں ایسے بیکٹریاز استعمال کیئے جاتے ہیں جو کہ اسے ڈی گریڈ ہونے کے عمل کو آسان بناتے ہیں۔ عام طور پر اس مقصد کیلئے مکئی سے نکلنے والے ایک عنصر پی ایل اے کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے خصوصی پلانٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور امریکہ بھر میں ایسے صرف چالیس سے پینتالیس کے قریب پلانٹس موجود ہیں۔ دوسری جانب دیگر طریقوں میں آکسیجن، نمی اور گرمی کے باہمی ملاپ سے ایک ری ایکشن پیدا کیا جاتا ہے جوکہ اس پلاسٹک کو تیزی سے ختم کرنے میں مدد دیتا ہے لیکن بعض اوقات یہ ری ایکشن زہریلے مواد بھی پیدا کردیتا ہے اور باقی بچ رہنے والے پلاسٹک کو زہریلے مواد میں بدل دیتا ہے۔ کبھی کبھار پلاسٹک کے اس ری ایکشن سے میتھین گیس بھی پیدا ہوجاتی ہے جو کہ ماحول کیلئے خطرناک ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے ماحول پر خطرناک نتائج کو کم کرنے کی واحد صورت بس یہی ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار کو کم سے کم کیا جائے، دوسری صورت میں پلاسٹک سادہ ہو یا بائیوڈی گریڈ ایبل، دونوں صورتوں میں خطرناک ہی ہوتا ہے۔
بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک متعارف
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
اسے بھی اٹھا لیں
-
پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان ہو گیا
-
بلڈ پریشر کی مقبول دوا پر پابندی عائد
-
بیرونِ ملک روزگار کیلئے جانے والے پاکستانیوں کیلئے بڑا فیصلہ
-
لاہور میں دل دہلا دینے والا واقعہ، 2سگی بہنوں سے 5افراد کی مبینہ اجتماعی زیادتی
-
عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ کا ایلون مسک کو خط
-
رمضان المبارک کا آغاز کب ہوگا؟ ممکنہ تاریخ سامنے آگئی
-
بھارت کی اشتعال انگیزی اسے ہی مہنگی پڑگئی، آئی پی ایل کو اربوں ڈالرز کا نقصان
-
چینی سائنسدانوں نے چکن کا متبادل سستا گوشت تیار کرلیا
-
ثناء یوسف قتل کیس میں اہم پیشرفت سامنے آگئی
-
بھارتیوں کے امریکا میں بچے پیدا کرکے شہریت لینے کے خواب ٹرمپ نے چکنا چور کردیئے
-
نوجوان کی نازیبا ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے والا شخص گرفتار
-
طلاق کے بعد 90 دن کے اندر ازدواجی تعلقات پر زیادتی کا مقدمہ خارج
-
چوہدری اسلم کی بیوہ نے فلم دھریندر کا جواب دینے کا ارادہ کرلیا















































