اسلام آباد(نیوز ڈیسک )پے پال ایران، کیوبا اور سوڈان میں پابندیوں کے خلاف ورزی کرتے ہوئے رقوم کی منتقلی کے دعوﺅں کے بعد امریکی حکومت کو 77لاکھ امریکی ڈالر جرمانہ ادا کرے گی۔امریکی محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ رقوم کی منتقلی کرنے والے یہ ادارہ رقوم کی منتقلی کا مناسب طور پر جائزہ لینے اور منتقلی کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔رقوم کی منتقلیوں میں سات ہزار امریکی ڈالر کی منتقلی بھی شامل ہے جو ایک ایسے فرد کی طرف کی گئی ہے جس کا نام امریکی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاو¿ کی فہرست میں شامل ہے۔پےپال کا کہنا ہے کہ انھوں نے رقوم کی جانچ پڑتال کو بہتر بنایا ہے۔ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ’رضا کارانہ‘ طور پر محکمہ خزانہ کے آفس آف ایسٹس کنٹرول (او ایف اے سی) کو سنہ 2009 اور سنہ 2013 کے درمیان ہونے والی مخصوص رقوم کی منتقلی کے بارے میں بتایا تھا۔پے پال کے مطابق جانچ میں تاخیر کے باعث کچھ غیرقانونی رقوم کی منتقلی بھی عمل میں آئی تھی۔پے پال کے نمائندے نے بتایا کہ ’اس وقت سے ہم نے او ایف اے سی کے قوائد و ضوابط پر پورا اترنے کے لیے رقوم کی وقت حقیقی میں جانچ متعارف کروائی ہے۔‘ایسے ہی ایک کیس میں کرساد ظفر سیئر نامی شخص بھی شامل تھے، جنھیں سنہ 2009 میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پڑنے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام سے منسلک قرار دیا تھا۔اکتوبر سنہ 2009 اور اپریل سنہ 2013 کے درمیان پے پال نے مبینہ طور پر ان کے نام سے 136 بار رقوم منتقل کیں۔دیگررقوم کیوبا، سوڈان اور ایران میں مال اور سروسز سے متعلق تھیں۔مجموعی طور پر، محکمہ خزانہ کے مطابق تقریباً 40 ہزار امریکی ڈالر کی 500 منتقلیاں پے پال کے ذریعے ہوئیں، جو واضح طور پر ان پابندیوں کی خلاف ورزی ہے جو امریکی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیے گئے افراد یا اداروں سے بزنس نہ کرنے کا پابند کرتی ہیں۔تاہم، پے پال نے پابندیوں کی خلاف ورزی کو تسلیم یا اس کی تردید نہیں کی۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں