نئی دہلی (نیوز ڈیسک)بھارت میں گذشتہ دنوں اتر پردیش کی پولیس نے 12ہویں جماعت کے ایک طالب علم کو ایک ریاستی وزیر اعظم خان کے خلاف مبینہ طور پر فیس بک پر ایک نام نہاد قابلِ اعتراض پیغام شائع کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔بھارت کے نیوز چینلز پر جمعے کو اس طالب علم اور ان کی والدہ کو ایک پریس کانفرنس میں فیس بک کے اس پیغام پر طالب علم کے مستقبل کے لیے وزیر سے معافی مانگتے اور رحم کی التجا کرتے ہوئے دکھایا گیا۔بھارت کی سابقہ حکومت نے انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور ہتک آمیز بیانات پر پابندی لگانے کے لیے ایک قانون پاس کیا تھا۔جس کی کچھ شقیں آزادی اظہار اور سوشل میڈیا پر پیغامات کی ترسیل کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ قانون کی ان شقوں کا اکثر سخت گیر مزہبی تنظیمیں ، سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر کسی پیغام یا ویڈیو پر پابندی لگانے کے لیے کسی سیاسی جماعت یا تشدد برپا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی مذہبی تنظیموں کے طرف سے احتجاج یا ایک ایف آئی آر درج کرانا کافی ہے۔ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ کے اس دور میں بھارتی جمہوریت میں ریاست اور مذہبی تنظیمیں مخالفت اور کبھی کبھی نفرت انگیز پیغامات کو سنسر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔تیز رفتار پیغام بھیجنے کے لیے ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ کے اس دور میں بھارتی جمہوریت میں ریاست اور مذہبی تنظیمیں مخالفت اور کبھی کبھی نفرت انگیز پیغامات کو سنسر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کچھ روز قبل خود حکومت نے اعتراض کیا تھا کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں آئیڈیاز اور خیالات پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی لیکن اس دور میں بھی کچھ لوگ خیالات، نظریات، عقائد اور تصورات پر پابندی عائد کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ابتدائی طور پر انھیں کامیابی بھی ہو رہی ہے۔گذشتہ مہینے فلموں کی ریلیز سے پہلے ان کا جائزہ لینے والی کمیٹی نے بعض الفاظ کی ایک فہرست جاری کی اور یہ حکم صادر کیا کہ فلموں میں ان الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے۔ ہدایت کاروں ، فلم سازوں اور دانشوروں کے ہنگاموں اور مذمت کے بعد یہ فہرست واپس لے لی گئی اور سنسر بورڈ کو یہ سمجھ آگیا کہ اس کی حدیں کہاں تک مقرر ہیں۔جمہوری ملکوں میں بھارت کا شمار ان چند ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں اب بھی سیاسی جماعتیں، حکومت اور مذہبی گروپ فرد کی آزادی پر غالب آنے اور ان کی طرزِزندگی پر اپنے تصورات مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک نے گذشتہ دنوں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق بھارت نے پوری دنیا میں سب سے زیادہ فیس بک سے پیغامات ہٹانے کی درخواست کی۔اس رپورٹ کے مطابق 2014 میں بھارتی حکومت کی درخواست پر 5832 پیغامات کو ہٹایا گیا۔معلومات اور اطلاعات تک رسائی اور اس کی ترسیل کا یہ ایک ایسا جن ہے جو باہر آچکا ہے۔پاکستان کی جانب سے اسی طرح کی صرف 54 درخواستیں موصول ہوئیں جبکہ ترکی 3624 پیغامات ہٹوانے کی درخواستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔یہی نہیں بھارت نے فیس بک استعمال کے والے لوگوں کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کی بھی ساڑھے پانچ ہزار درخواستیں دیں حالانکہ ان میں سے بیشتر کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ یہ تفصیلات جرائم کی تفتیش کے سلسلے میں درکار تھیں۔سوشل میڈیا کے پیغامات اور مواد پر قابو پانا دنیا کی کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ معلومات اور اطلاعات تک رسائی اور اس کی ترسیل کا یہ ایک ایسا جن ہے جو باہر آ چکا ہے اور جسے دوبارہ قید نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس نے پوری دنیا میں ہر شخص کو اپنے خیالات اور اظہار کی آزادی دی ہے۔ خیالات اور اظہار کا یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں۔اس پر قابو پانے کی کوشش ہواؤں کا رخ بدلنے کے مترادف ہے۔
بھارت میں سوشل میڈیا قابو سے باہر
21
مارچ 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں