اسلام آ باد (نیوز ڈیسک)کراچی میں سیکیورٹی اداروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایک کم عمر بلوچ لڑکی کو خودکش حملے کے لیے استعمال کیے جانے سے محفوظ بنا لیا۔سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی محمد آزاد خان کے ساتھ پریس بریفنگ میں بتایا کہ شدت پسند عناصر اس بچی کو خودکش بمبار بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حکام کے مطابق اسے دھوکے سے کراچی لایا گیا تھا، تاہم شہر میں ناکوں پر سخت نگرانی کے باعث اس کا ہینڈلر اسے مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں ناکام رہا، جس کے نتیجے میں یہ خطرناک منصوبہ بے نقاب ہو گیا۔تفتیش کے دوران بچی نے پورے نیٹ ورک، رابطوں اور استعمال کیے جانے والے طریقۂ کار سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔
کم عمری کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر اس کے اہلِ خانہ کو بلایا گیا، بچی کی شناخت مکمل طور پر پوشیدہ رکھی گئی اور اسے مکمل تحفظ اور عزت کے ساتھ خاندان کے حوالے کر دیا گیا، جبکہ تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران متاثرہ بچی اور اس کی والدہ کے بیانات بھی شناخت ظاہر کیے بغیر میڈیا کو سنوائے گئے۔بچی نے اپنے بیان میں بتایا کہ ابتدا میں اسے سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت آمیز مواد دکھایا گیا، جو رفتہ رفتہ بار بار سامنے آنے لگا۔ بعد ازاں لنکس اور تقاریر بھیج کر اسے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ جان قربان کرنا ہی سب سے بڑا مقصد ہے۔ اس نے بتایا کہ جب رابطہ کار کو معلوم ہوا کہ اس کے والد حیات نہیں ہیں تو ہمدردی کے نام پر اسے مزید الجھایا گیا۔ واٹس ایپ گروپس میں دہشت گرد کارروائیوں کو بہادری کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔بچی کے مطابق ناکے پر پوچھ گچھ کے دوران اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ شدید خوف میں مبتلا ہو گئی۔
اس نے کہا کہ بلوچ روایات عورت کے احترام کا درس دیتی ہیں، اور عورتوں یا بچیوں کو قربانی کے نام پر استعمال کرنا بلوچ ثقافت نہیں۔ ایسے لوگ مددگار نہیں بلکہ شکاری ہوتے ہیں۔بچی کی والدہ نے کہا کہ انہوں نے عوامی مفاد میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی اور بچی اس جال میں نہ پھنسے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے ایک ماں کی طرح ان کی بیٹی کی جان، عزت اور مستقبل کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔















































