اسلام آباد (نیوز ڈیسک) راولپنڈی کے تھانہ پیرودھائی کی حدود میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی سدرہ کے کیس میں چشم کشا حقائق سامنے آ گئے ہیں، جسے مبینہ طور پر ایک جرگے کے حکم پر قتل کر کے خاموشی سے دفنا دیا گیا تھا۔ ایکسپریس نیوز نے اس افسوسناک واقعے کی تہوں کو بے نقاب کیا ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق سدرہ، جو ضیا الرحمان کی بیوی تھی، 11 جولائی کو شوہر سے جھگڑے کے بعد گھر سے لاپتہ ہوئی۔ وہ باڑہ مارکیٹ کے تاجر عصمت اللہ، اپنے شوہر ضیا الرحمان اور والد عرب گل کی قریبی عزیزہ تھی۔
اہل خانہ کو جب یہ علم ہوا کہ سدرہ کے مبینہ طور پر عثمان نامی شخص سے تعلقات تھے، تو وہ سب عثمان کے گھر پہنچے، مگر نہ سدرہ ملی اور نہ ہی عثمان۔بعد ازاں، 16 جولائی کو عصمت اللہ، سدرہ کے والد اور بھائی اسے مظفر آباد سے راولپنڈی واپس لے آئے۔ اگلی صبح 17 جولائی کو، سدرہ کے شوہر کے گھر جرگہ منعقد ہوا جس کی قیادت عصمت اللہ نے کی۔ ذرائع کے مطابق صبح چار بجے جرگے نے فیصلہ سنایا کہ سدرہ چونکہ گھر سے فرار ہوئی تھی، اس لیے اسے زندگی کا حق حاصل نہیں رہا۔ چنانچہ اسی گھر میں سدرہ کے والد، بھائی اور سسر نے اسے گلا گھونٹ کر مار دیا۔قتل کے بعد خواتین نے اس کی میت کو نہلایا، اور عصمت اللہ نے اس کا جنازہ پڑھایا۔ قبرستان کی کمیٹی سے رابطہ کر کے جلدی میں قبر کی جگہ مانگی گئی۔ چونکہ گورکن نے بتایا کہ قبر کھودنے میں وقت لگے گا، قاتلوں نے خود قبر کھودنے کا فیصلہ کیا۔ رکشے میں سدرہ کی لاش لائی گئی اور جلدی میں دفنا کر قبر کے نشانات مٹا دیے گئے۔پولیس کو مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع ملی تو تفتیش کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ ملزمان نے 20 جولائی کو چالاکی سے سی پی او راولپنڈی کو سدرہ کے اغوا اور مبینہ نکاح کی شکایت درج کروانے کی کوشش کی تاکہ کیس کو الجھایا جا سکے۔
تاہم پولیس نے مختلف قبرستانوں، جن میں پیرودھائی، ڈھوک حمیداں اور ایچ-11 شامل ہیں، میں نئی قبروں اور ان کے اندراج کا باریک بینی سے جائزہ لینا شروع کر دیا۔ بالآخر، ایک رکشہ ڈرائیور کی اطلاع پر پولیس نے اس کی مدد سے واقعے کی تصدیق کر لی۔ قبرستان کے ریکارڈ سے بھی چھیڑ چھاڑ واضح طور پر نظر آئی، اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں سدرہ کی لاش پولی تھین میں لپٹی دکھائی دی جس کے بعد پولیس نے گورکن ارشاد اور کمیٹی ممبر کو حراست میں لے لیا۔اس کے ساتھ ہی سدرہ کے والدین اور سسرالی رشتہ داروں کو بھی شامل تفتیش کر کے نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ پولیس نے عدالت سے قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کی اجازت طلب کی، جس پر عدالت نے 26 جولائی کو لواحقین کو طلب کرتے ہوئے نوٹس جاری کر دیا۔ذرائع کے مطابق، عصمت اللہ کا ماضی میں سیاسی روابط رہے ہیں اور اس پر تجاوزات کے خلاف کارروائیوں میں مزاحمت کے مقدمات بھی درج ہو چکے ہیں۔ادھر قومی کمیشن برائے وقار نسواں (NCSW) کی چیئرپرسن ام لیلی اظہر نے اس دل دہلا دینے والے واقعے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی فرد، جرگے یا خونی رشتے کو کسی خاتون کی جان لینے کا اختیار نہیں۔ انہوں نے قاتلوں کو فوری گرفتار کرنے اور انہیں قانون کے مطابق سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔