اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بدھ کو سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت کی۔ شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت پر وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو وکیل علی بخاری نے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی۔
عدالت نے شاہ محمود قریشی کے وکیل سے سوال کیا کہ اس کیس میں آپ کے موکل کا کیا رول ہے؟وکیل علی بخاری نے بتایا کہ آفیشل سیکرٹ انفارمیشن، سائفر کو غیر قانونی رکھنا، استعمال کرنا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں، پہلے سابق وزیرِ اعظم کی درخواستِ ضمانت خارج ہوئی اور پھر میرے موکل کی، مقدمے میں سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور اسد عمر کا ذکر ہے، چالان میں نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواستِ ضمانت خارج جبکہ اسد عمر کی کنفرم کر دی گئی۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے کہا کہ چالان کی کاپی درخواست گزار کو احتجاج کرنے پر فراہم کی گئی، ہمیں ابھی تک صرف161 اور 164 کے بیانات کی کاپیاں فراہم کی گئی ہیں، اس مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کا کردار مختلف ہے۔عدالت میں وکیل علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن عدالت میں پڑھ کر سنایا۔وکیل نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں سائفر کے متن سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا، وزیرِ خارجہ کی ذمے داری ہے کہ جو چیز آئے اسے وزیرِ اعظم کے سامنے رکھے، وزیرِ اعظم نے وزیرِ خارجہ کی فراہم کردہ معلومات کو کابینہ کے سامنے رکھنا ہوتا ہے، شاہ محمود قریشی کے خلاف کیس سزائے موت کا تو نہیں ہے، پراسیکیوشن کا پورا کیس درست مان لیا جائے تو بھی 2 سال کی سزا بنتی ہے۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔وکیل نے بتایا کہ کابینہ اجلاس، ایجنڈا میٹنگز، سب کچھ پرنسپل سیکریٹری نے کرنا ہے، جس بندے نے سارا کچھ کرنا ہے اس کا نام نہیں، جن کا کوئی کردار نہیں ان پر مقدمہ بنایا گیا، سائفر کیس کا مقدمہ سائفر آنے کے 17 ماہ بعد درج کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی شاہ محمود قریشی کے وکیل سید علی بخاری اور تیمور ملک کے دلائل مکمل ہوئے۔ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ 23 اکتوبر کو قانون کے مطابق سائفر کیس میں فردِ جرم عائد کی گئی، 6 حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، 9 اکتوبر کو کاپیز کی نقول شاہ محمود قریشی کو دی گئی تھیں، 17 اکتوبرکو شاہ محمود قریشی نے 9 اکتوبر کے آرڈر پر دستخط کیے، 23 اکتوبرکو قانونی تقاضے پورے کر کے فردِ جرم عائد ہوئی تھی۔
عدالت نے سوال کیا کہ یہ الزام بھی وائٹ کالر کرائم جیسا ہی ہے، کیا جو نقول یہ مانگ رہے ہیں وہ دی گئیں؟اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون میں جو لکھا ہے اس کے مطابق کاپیز شاہ محمود قریشی کو دی گئیں۔عدالت نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں قانون کے مطابق جو نقول تقسیم ہونا ضروری تھیں وہ دی گئیں۔اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون میں صرف کاپیز فراہم کرنے کا ذکر ہے، ملزم کے وصول کرنے کا نہیں، اگر ملزم تعاون نہ کر کے کاپیز وصول نہ کرے تو اس سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں، عدالت نے کاپیز سپلائی کر دی تھیں، کچھ آڈیو لیکس بھی اس کیس میں تھیں، پٹیشنرز نے لاہور ہائی کورٹ میں ایف آئی اے کے نوٹسز چیلنج کیے، مقدمہ اس عدالت کے دائرہ اختیار میں تھا مگر لاہور ہائی کورٹ کا ایک سال حکم امتناع رہا، ایف آئی اے نے اس کے بعد انکوائری مکمل ہونے پر کمپلینٹ پر مقدمہ درج کیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ پٹیشنر کی حد تک چارج صرف جرم میں معاونت کا ہے؟اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ شاہ محمود نے نہ تقریر، نہ ہی اپنے الفاظ کا انکار کیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ شاہ محمود پر چارج معاونت کا ہی ہے؟ سائفر اپنے پاس رکھنے اور مس یوز کرنے تو نہیں؟اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی بالکل شاہ محمود قریشی پر چارج معاونت کا ہی ہے، انہوں نے سائفر پر ٹی وی پروگرام میں کہا کہ چیئرمین نے درست طور پر اسے ڈسکلوز کیا، دنیا بھر میں کہیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے سائفر یوں پبلک کیا ہوں، صرف فارن سیکریٹری کو اجازت دینے کا اختیار ہے کہ سائفر کس کس کے پاس جانا ہے، یہ اختیار عوام تک پہنچانے کت لیے نہیں، شاہ محمود نے سنگین جرم کیا اور وہ ضمانت کی رعایت کے مستحق نہیں۔اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کے دلائل مکمل ہو ئے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم 15 سے 20 دن میں سائفر کیس کا ٹرائل مکمل کرسکتے ہیں، عدالت 15 سے 20 دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ دے تو ٹرائل مکمل ہوسکتا ہے، یہ تو ٹرائل کو آگے ہی نہیں بڑھنے دیتے، یہ کہتے ہیں ہرسماعت پر تین تین گواہوں کے بیانات رکارڈ کریں، فارن منسٹر کو تو پرائم منسٹرکو ایسی تقریر سے روکنا چاہیے تھا، فارن منسٹر نے اس کے بجائے پرائم منسٹر کو سائفر کی معلومات پبلک کرنے پر اکسایا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ یہ جیل ٹرائل ہے، ان کیمرا ٹرائل نہیں، جیل ٹرائل کس انداز میں چل رہا ہے؟اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے بتایا کہ اٹارنی جنرل نے ہائی کورٹ کے ڈویڑن بینچ کو بتایا ہے کہ وہ تحفظات دیکھیں گے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جیل ٹرائل کا مطلب ہے کہ اوپن پبلک کورٹ پروسیڈنگ نہیں۔اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جیل ٹرائل میں پبلک کی رسائی منع نہیں مگر محدود ہے۔
عدالت نے کہا کہ جیل ٹرائل میں تو صرف وہی لوگ پروسیڈنگ دیکھ سکیں گے جنہیں جیل حکام اجازت دیں۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ جیل ٹرائل کیلیے ملزمان کے وکلا کی طرف سے 8 وکلا کی فہرست دی جاتی ہے۔ گواہان کیلیے الگ سے کمرہ ہے جہاں انہیں بٹھایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملزمان کے کمرے اور کمرہ عدالت کے درمیان جالی لگی ہے۔شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شاہ محمود اتنے ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے کہیں بھی سائفر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ انکا کہنا تھا کہ کوئی ایک جگہ بتادیں جہاں شاہ محمود قریشی نے سائفر کا لفظ استعمال کیا ہو۔ دلائل کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کی ضمانت درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔ اس سے قبل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواست پر اعتراض کیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ لیکن یہ تو ضمانت کی درخواست ہے۔ پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں سرٹیفکیٹ جمع کروانا ہوتا ہے وہ نہیں ہے۔جج نے کہا کہ سرٹیفکیٹ شریک ملزم کا نہیں ہے لیکن اس کا ریفرنس تو دیا ہوا ہے۔شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ کرمنل کیسز میں اگر 10 کیسز ہیں تو 10 وکیل بھی ہو سکتے ہیں۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے معاملات میں دیگر کیسز کو یکجا کر دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں ہم اس کو مان لیتے ہیں۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے میرے موکل کی ضمانت خارج کر دی تھی، ٹرائل کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد ہائی کورٹ میں یہ پہلی درخواست ضمانت ہے، ہم نے دستاویز کی فوٹو کاپی لگائی ہے کیونکہ ہمیں اصل کاپی فراہم نہیں کی گئی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ اعتراض دور کرتے ہیں، کیس کا ریکارڈ پیش کریں اور دلائل دیں۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ وقت دیا جائے ہم ریکارڈ پیش کر دیتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کا متعلقہ ریکارڈ پیش ہونے تک سماعت میں وقفہ کیا گیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ 15 منٹ کا وقت ہے ریکارڈ کے ساتھ آئیں پھر کیس سنتے ہیں۔