اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی جانب سے آڈیو لیکس کے خلاف کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہاگیاہے کہ شہریوں کی الیکٹرانک سرویلنس اور ٹیلیفون کالز ریکارڈنگ کی صلاحیت کس ادارے کے پاس ہے؟۔ جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے آڈیو لیکس کے خلاف کیس کی سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کی الیکٹرانک سرویلنس اور ٹیلیفون کالز ریکارڈنگ کی صلاحیت کس ادارے کے پاس ہے؟اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں معاملے پر وزیرِ اعظم آفس، وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع سے دوبارہ رپورٹس طلب کر لیں۔
عدالت کی جانب سے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ جواب دیں کس ایجنسی کے پاس شہریوں کی الیکٹرانک سرویلنس اور کالز ریکارڈنگ کی صلاحیت ہے، وفاقی حکومت کے کسی ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں عدالتی سوالوں کے جوابات نہیں دیے، تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے رپورٹ جمع کرانے کا ایک اور موقع دے رہے ہیں۔تحریری حکم نامے میں جسٹس بابر ستار نے ہدایت کی کہ وفاقی حکومت اور ماتحت ادارے عدالتی سوالوں کے جوابات پر مشتمل نئی رپورٹس جمع کرائیں، دوسری صورت میں عدالت انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ٹیلی کام آپریٹرز سے براہِ راست جواب طلب کرے گی۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی بھی اپنی نظرِ ثانی شدہ رپورٹ جمع کرائے، پی ٹی اے بتائے کہ قانونی مقاصد کے لیے فون کالز ریکارڈنگ کا اختیارکس کے پاس ہے؟ بتایا جائے کہ فون کالز ریکارڈنگ کی اجازت کا فریم ورک اور مکینزم کیا ہوتا ہے؟ پی ٹی اے نے ٹیلی کام آپریٹرز کو کالز ریکارڈنگ کی اجازت دینے کے لیے ہدایات جاری کیں؟ عدالت نے تحریری حکم نامے کے ذریعے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے کی ایسی ہدایات اور لائسنس فراہمی کی تفصیلات بھی رپورٹ کا حصہ بنائی جائیں۔حکم نامے کے اجراء کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی آئندہ سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔