ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

موجودہ،سابق سول و ملٹری بیوروکریسی،ممبران پارلیمنٹ، وزراء اور ججز سے شاہانہ مراعات واپس لی جائیں، جماعت اسلامی کا مطالبہ

datetime 17  جون‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی)جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس نے ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تاریخی بے قدری اور ملکی معیشت کی مکمل تباہ حالی پر موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں، آئی ایم ایف کے غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی مطالبات کی من وعن تابعداری اور بدترین غلامی کو سنگین قومی جرم ہے اور اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف کی طرف سے اپنے متوقع معاہدے سے قبل روپے کی قدر میں 20فیصد کمی کی شرط کو حرف بہ حرف پورا کیا۔ پہلے 22مارچ 2023ء کو ایک ہی دن میں انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں یک لخت 18.98روپے کی کمی کردی گئی پھر آئی ایم ایف کے مطالبے پر حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں پر ڈالر کی خرید و فروخت پر کئی پابندیاں عائدکرکے ڈالر کی آمد ورفت کو محدود کیا۔ نیز آئی ایم ایف کے مطالبے پر ڈالر کو افغان ٹریڈ ریٹ اور گرے مارکیٹ ریٹ کے مطابق کیا۔

جس کی وجہ سے ڈالر ریٹ 300روپے سے زیادہ ہوگیا اور میسربھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے 75سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حج کوٹا واپس کردیا ہے اور ملک میں جان بچانے والی ادویات سمیت 131ضروری ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے جبکہ اس دوران آئی ایم ایف نے ایک ڈالر کی بھی رقم نہیں دی لیکن ہمارے حکمرانوں کے ذریعے پاکستانی عوام کے خلاف سخت ترین اقدامات کرائے ہیں۔ 260ارب روپے کے گردشی قرضے کم کرنے کے لیے بجلی کے صارفین پر 3.82روپے فی یونٹ سرچارج عائد کردیا گیا۔

اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کا سارا زور بالواسطہ ٹیکسوں اورغریب عوام پر بوجھ ڈالنے کے لیے ہے۔ ان کی طرف سے اگراشرافیہ کی مراعات میں کمی کا مطالبہ بھی کیاگیاتو حکومت نے قطعاً عمل درآمد نہیں کیا۔ اس وقت تمام معاشی اشاریے بھیانک صورت حال کو واضح کررہے ہیں۔ افراط زر کی شرح 22.7فیصدتک پہنچ چکی ہے۔ بیرونی قرضے 126.3ارب ڈالر اور کل قومی قرضہ 63868ارب روپے ہے جبکہ تجارتی خسارہ 118.74ارب ڈالرتک پہنچ چکا ہے۔

معاشی ترقی کا ہدف 5فیصد مقرر ہواتھا۔ جب کہ حاصل 0.29فیصد ہوا۔ فی کس آمدن کم ہو کر 1568ڈالر رہ گئی۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتہ میں 11کروڑ 90لاکھ ڈالرکی کمی ہوئی ہے۔پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ کی شرح اپنے تمام پڑوسی ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ منفی اشاریہ خود قومی بجٹ برائے سال 2023-24ہے۔ حکومتی اعلانات کی وجہ سے عوام کو بجا طور پر بڑا ریلیف ملنے کی توقع تھی لیکن بجٹ کاایک ایک حرف اور ایک ایک ہندسہ گواہی دے رہاہے کہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کو اصل اہمیت دی ہے اور عوام کو دیا جانے والا ریلیف پیکیج اعداد و شمار کے گورکھ دھندے،الفاظ کی جادوگری اور دراصل عوام کی بے قدری اور بے توقیری کے سوا کچھ بھی نہیں۔

حکومت نے خود اعلان کیاکہ ہم نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر من و عن عمل درآمد کیاہے۔ ٹیکس فری بجٹ کا دعویٰ بھی بالکل بے بنیاد ہے۔بجٹ میں صحت کے لیے 24ارب،تعلیم کے لیے84ارب، دفاع کے لیے 1800ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جب کہ سود کی مد میں 7307ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ بجٹ کی سب سے بڑی مد ہے۔ اپنی قوم سے 9200ارب روپے کے ٹیکس وصول کرکے صرف سود خوروں کی خدمت کی گئی ہے۔ جب کہ شاہانہ اخراجات اور ناجائز مراعات میں ایک روپے کی بھی کمی نہیں کی گئی۔ 28اپریل 2022ء بمطابق 26رمضان المبارک 1443ھ کو وفاقی شرعی عدالت نے سود کی ہر قسم کو حرام قرار دیتے ہوئے حکومت کو سودی معیشت سے نجات کے لیے واضح ہدف دیاتھالیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود حکومت نے سود کے خاتمے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ آئین پاکستان اور عدالتی فیصلے کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے شرح سود میں 4مرتبہ اضافہ کیا گیا اور اب شرح سود 21فیصد ہے۔

اس سے افراط زر اور مہنگائی میں اضافہ ہواہے۔ اور صرف سود ی کمرشل بنکوں کو فائدہ پہنچا ہے کہ جو حکومت کو قرضے دے کر ماضی کے 7فیصد کے مقابلے میں 21فیصد سود لے رہے ہیں۔ اسی طرح 5نئے ڈیجیٹل سودی بنکوں کو لائسنس دیئے جارہے ہیں۔ گویاکہ حکمرانوں نے نعوذباللہ۔ اللہ اور رسولﷺ کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جو سراسر تباہی اور عذاب الٰہی کاراستہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کایہ اجلاس مطالبہ کرتاہے کہ انتہائی گھمبیر معاشی صورت حال کے پیش نظر فوری طور پر ملک میں خصوصی اور بڑے مالیاتی اقدامات کیے جائیں اور اس مرتبہ عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے صرف مراعات یافتہ اشرافیہ سے قربانی لی جائے۔

تمام موجودہ و سابقہ سول و ملٹری بیوروکریسی،ممبران پارلیمنٹ، وزراء اور ججز حضرات سے شاہانہ مراعات واپس لی جائیں۔ مفت پٹرول،بجلی اور اور بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔ نیز پروٹوکول اور سیکورٹی گاڑیوں کااستعمال بھی ختم یا محدودکیاجائے۔سرکاری اداروں اوراسٹیبلشمنٹ کے غیر ترقیاتی اخراجات میں فی الفور 30فیصد کمی کی جائے۔ ریٹائرڈ سول و ملٹری افسران کے بھاری مشاہروں پر کنٹریکٹ ملازمتیں ختم کی جائیں۔ تمام سرکاری عمارات،ملٹی نیشنل کمپنیز و دیگر صنعتی وتجارتی کمپنیوں کو نیشنل گرڈ سے سولر پر منتقل کیاجائے۔ سولر سسٹم برائے گھریلو استعمال و رفاحی و تعلیمی مقاصد کے لیے آسان اقساط پر بلاسود قرضے دیئے جائیں۔ پٹرولیم مصنوعات میں تمام اضافہ واپس لے کر قیمتوں میں 40فیصد کمی کی جائے۔

پٹرولیم لیوی کانفاذ ختم کیاجائے۔روس، ایران سمیت جہاں سے بھی سستا اور ڈالر کے علاوہ کرنسی میں پٹرول ملتا ہو وہاں سے لیاجائے۔ٹیکس کلچر کو پروموٹ کیا جائے۔ شرح ٹیکس کم کرکے ٹیکس نیٹ بڑھایاجائے۔ بڑی گاڑیوں،کا سمیٹکس اور اشیائے تعیش کی درآمد بند ہو اور پٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل میں بھی 25فیصد کمی کی جائے۔ گزشتہ عرصہ میں عوام پر عائد زائد ٹیکسوں کو ختم کیاجائے۔ جی ایس ٹی پانچ فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشن میں اگرچہ اضافہ ہواہے۔ لیکن اس اضافے کو زیادہ متوازن اور مہنگائی و افراط زر کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق حکومت سودی معیشت ختم کرے۔

سودی قوانین ختم کرکے متبادل قانون سازی کی جائے۔بر وقت اوراولو پاکستان سمیت تمام سودی اسکیمیں ختم کی جائیں۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کی فوری تشکیل کی جائے اور شریعہ جج کسی نامور غیر متنازعہ عالم دین کو مقرر کیاجائے۔حکومت حرمت سود کے فیصلہ کے خلاف عدالتی اپیلوں کی بجائے واضح اعلان کرے کہ کنونشنل بنکنگ کا خاتمہ کیاجائے گا اور صرف غیر سودی بنکاری کی اجازت ہوگی۔ یہ اجلاس تمام کمرشل بنکوں اور انویسٹمنٹ کمپنیوں سے بھی اپیل کرتاہے کہ وہ از خود بلاسود بینکاری کو اختیار کریں۔ لوٹی ہوئی پاکستانی دولت بیرون ملک سے واپس لائی جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان نے محض تنقید کرنے کی بجائے معیشت کی بہتری کے لیے ہمیشہ متبادل تجاویز دی ہیں۔

اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف پر انحصار کا خاتمہ،سودی معیشت سے مکمل نجات، ارتکاز دولت کی حوصلہ شکنی،حرام ذرائع سے دولت کمانے پر مکمل پابندی،سٹے بازی، قمار بازی، ذخیرہ اندوزی، شاہانہ اخراجات،مصنوعی طریقہ سے قیمتیں بڑھانے کے عمل کا مکمل خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کو اپناحقیقی مشن بنانے والی کوئی خداخوف، باصلاحیت، دیانتدار حکومت اوراس کی ماہرین معیشت پر مشتمل ٹیم ہی معیشت میں انقلابی تبدیلی کرسکتی ہے۔جماعت اسلامی نے مستقبل کے لیے ایک بہترین اور انقلابی منشور دیا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستانی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ قوم اسے اپنے اعتماد سے نوازے تو وہ پوری یکسوئی اور محنت سے معیشت کو موجودہ دلدل سے نکال کر مستقل اور پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کرے گی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…