منگل‬‮ ، 22 اپریل‬‮ 2025 

آڈیو لیکس معاملے پر عمران خان نے کمیشن سے بڑا مطالبہ کر دیا

datetime 20  مئی‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (این این آئی) پاکستان تحریک انصاف و سابق وزیر اعظم چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن کو جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان میں ایک اہم نکتہ موجود نہیں کہ وزیر اعظم آفس اور سپریم کورٹ کے ججز کی غیر قانونی اور غیر آئینی نگرانی کے پیچھے کون ہے۔

انہوں نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت نے آڈیو لیکس کے معاملے پر 2017ء کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے سیکشن 3 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے ترتیب دیئے گئے ٹرمز آف ریفرنس میں ایک سوچا سمجھا نقص/خلا موجود ہے یا جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے۔ یہ (ٹی او آرز)اس پہلو کا ہرگز احاطہ نہیں کرتے کہ وزیراعظم کے دفتر اور سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کی غیرقانونی و غیرآئینی نگرانی کے پیچھے کون ہے؟۔

کمیشن کو اس تحقیق کا اختیار دیا جائے کہ عوام اور اعلی حکومتی شخصیات کی ٹیلی فون پر کی جانے والی گفتگو کی ٹیپنگ اور ریکارڈنگ میں کون سے طاقتور اور نامعلوم عناصر ملوث ہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل 14کے تحت پرائیویسی کے حق کی سنگین خلاف ورزی کے۔ عمران خان نے کہا کہ فون ٹیپنگ کے ذریعے (عوام اور اعلی شخصیات کی)نگرانی اور ان کے مابین کی جانے والی بات چیت تک غیرقانونی رسائی حاصل کرنے والوں کا ہی محاسبہ نہ کیا جائے بلکہ اس ڈیٹا کو کانٹ چھانٹ کر اور اس کے مختلف حصوں کو توڑ مروڑ کر سوشل میڈیا کو جاری کرنے والوں سے بھی باز پرس کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے سائے میں پنپنے والی جمہوریتوں میں ریاست کی جانب سے (شہریوں کی)زندگی کے بعض پہلوؤں میں اپنی مرضی سے مداخلت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ جب بھی ریاست یوں غیرقانونی طور پر فرد پر پہرے بٹھاتی/اس کی نگرانی کرتی ہے تو آرٹیکل 14کے تحت اسے میسر پرائیویسی اور شخصی وقار کے حق پر زد پڑتی ہے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ حال ہی میں خفیہ طور پر جاری (لیک) کی جانے والی بعض کالز ایسی تھیں جو اصولاً وزیراعظم کے دفتر کی محفوظ ٹیلی فون لائن پر کی جانے والی گفتگو کے زمرے میں آتی تھیں۔

اس کے باوجود انہیں غیرقانونی پر ٹیپ اور کانٹ چھانٹ/رد و بدل کرکے جاری کیا گیا۔ اس ٹیپنگ میں کارفرما یہ دیدہ دلیر عناصر بظاہر وزیراعظم کی دسترس سے باہر دکھائی دیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ان کا علم تک نہیں۔ یہ کردار ہیں کون جو قانون سے بالاتر ہیں، ملک کے وزیراعظم کے بھی ماتحت نہیں اور پوری ڈھٹائی سے (شہریوں، اعلی شخصیات کی)خلافِ قانون نگرانی کرتے ہیں۔ کمیشن کی جانب سے ان عناصر کی نشاندہی ناگزیر ہے۔

موضوعات:



کالم



Rich Dad — Poor Dad


وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…