اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)صدور، وزرا اعظم ، وزرا ، بیورو کریٹس ، جنرلز اور جرنلسٹس میں سے کسی نے بھی توشہ خانہ کو نہ بخشالیکن ایس ایس جی کے گن مین اورپولیس کے کانسٹیبل نےملنے والے تحائف کیساتھ کیا کیا؟اہم انکشافات سامنے آگئے ،تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی ، اینکر اور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہمیں اب کم از کم
توشہ خانے کی پالیسی ضرور بنا لینی چاہیے، ہم اسلام آباد میں توشہ خانہ میوزیم بنا دیں اور تمام ممالک کے تحائف ان میں رکھ دیا کریں یا پھر ہر سال ان کی اوپن نیلامی کر کے فروخت کر دیا کریں یا پھر ہم احسن اقبال کی پیروی کریں۔احسن اقبال نے تین تحائف وصول کیے تھے، یہ دو رولیکس گھڑیاں اورکارپٹ تھا، انھوں نے قانون کے مطابق 20 فیصد رقم ادا کر کے یہ تحائف لے لیے تھے لیکن رپورٹ آنے کے بعد احسن اقبال نے تحائف کی سو فیصد رقم ادا کر دی۔ حکومت ماضی کی غلطیاں درست کرنے کے لیے یہ پیش کش تمام ’’تحائف برادران‘‘ کو دے سکتی ہے۔یہ لوگ بھی سو فیصد رقم جمع کرا کر اپنا ماضی ٹھیک کر لیں۔ دوسرا میں نے فہرست میں ایس ایس جی کے گن مین سپاہی عتیق الرحمن اور کانسٹیبل ملک قاسم محمود کے نام دیکھے، یہ دونوں غریب اہلکار ہیں۔معمولی تنخواہ میں گزارا کرتے ہیں لیکن یہ لوگ دل کے کتنے بڑے بادشاہ ہیں آپ ان کے عمل سے دیکھ لیجیے، انھیں بھی گھڑیاں ملیں لیکن انھوں نے یہ توشہ خانہ میں جمع کرا دیں اور 20 فیصد ادا کر کے بھی یہ تحفے حاصل نہیں کیے جب کہ یہ لوگ جن لوگوں کی حفاظت کر رہے تھے وہ یہ تحائف غائب کرتے رہے یا پھر 20 فیصد رقم دے کر تحفے گھر لے گئے لہٰذا آپ دل کے بادشاہ اور دل کے فقیر کا فرق ملاحظہ کر لیجیے۔