تراڑکھل(آن لائن ) حکومت ماحول دشمن پلاسٹک شاپنگ بیگز کو ختم کرنے میں ناکام۔ شہروں ، قصبوں، ندی نالوں ، دریائوں اور سمندروں میں شاپنگ بیگز کے انھبار۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ دریائی اور سمندری مخلوق بھی مشکلات کا شکار۔ حکومت پلاسٹک شاپنگ بیگز کا
متبادل متعارف کرانے میں مکمل ناکام۔ پلاسٹک کی صنعت کا آغاز 1900کی دہائی کے آغاز میں ہوا۔ اس صنعت کے آغاز سے لے کر ت1950تک پلاسٹک کی سالانہ پیداوار 1اعشاریہ5ملین میٹرک ٹن تک پہنچ گئی تھی جبکہ یہی پیداوار 2018میں359بلین میٹرک ٹن تک پہنچ گئی تھی اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہر سال 8ملین ملین میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا جمع ہو رہا ہے اور یہ کچراپھر ندی نالوں اور دریائوں سے ہوتاہوا بالآخر سمندر میں پہنچتا ہے۔ جس کی وجہ سے سمندری مخلوق کواپنی بقا کے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ پلاسٹک سے بنی اشیا خصوصاً شاپنگ بیگز ماحول کوبہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔دنیا کے بیشتر ممالک میں ان بیگز پر جزوی یا مکمل پابندی ہے۔ ان کے خاتمے کے سلسلے میں کاوشیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ پاکستان میں بھی اس کے خلاف کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اتنے بڑے خطرے کے سامنے یہ کاوشیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔آج بھی پاکستان کے شہروں ، قصبوں حتیٰ کہ دوردراز کے گائوں کے ندی نالے بھی ان پلاسٹک شاپنگ بیگوں کی آلائشوں سے اٹے پڑے ہیں۔ ان شاپنگ بیگز کی آلائشوں نے آزاد کشمیر کی خوبصورتی کو بھی ماند کر رکھا ہے۔ تمام سیاحتی مقامات پر ان شاپنگ بیگز کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ کبھی کھبار حکومت اور کچھ این جی اوز کے پلیٹ فارم سے ان کے خلاف ایک کمزور سی آواز اٹھی ہے لیکن چند دنوں میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے خلاف ایم منظم مہم چلائی جائے اورپلاسٹک بیگز کی خرید و فروخت اور پیداوار پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے متبادل بیگز کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ #/s#