لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک /این این آئی)پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کل صبح ساڑھے 4 بجے غیرملکی ایئرلائن کی پرواز سے لاہور سے دوحہ روانہ ہوں گے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر تیاریاں جاری ہیں۔ خاندانی ذرائع کے مطابق شہباز شریف لندن میں 22 مئی کو اپنے معالج سے طبی معائنہ کرائیں گے۔
شہباز شریف برطانیہ جانے کیلئے دوحہ میں ضروری قرنطینہ کریں گے۔ شہباز شریف دوحہ میں 10 روز قرنطینہ کے بعد لندن جائیں گے۔دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے نام بلیک لسٹ سے نکلوانے سے متعلق دائر درخواست منظور کرتے ہوئے مشروط طور پر باہر جانے کی اجازت دیدی،عدالت نے شہباز شریف کو 8 ہفتے کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی جو 8مئی سے 3 جولائی تک ہو گی۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی اور بلیک لسٹ نے نام نکالنے کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا یا۔فاضل عدالت کے طلب کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف عدالت میں پیش ہوئے۔شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ شہباز شریف کو پہلی مرتبہ آشیانہ میں 2018 میں گرفتار کیا گیا اور گرفتاری کے بعد رمضان شوگر ملز کا کیس بنا دیا گیا۔کہ فروری 2019 میں ضمانت ہوئی جس کے بعد حکومت نے نام ای سی ایل میں ڈال دیا لیکن ہائیکورٹ نے مارچ 2019 نام ای سی ایل سے نکال دیا،اس کے بعد حکومت نے نیا طریقہ نکالا اور نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف برطانیہ میں ڈاکٹر مارٹن سے چیک اپ کے لیے وقت لے چکے ہیں اور ان کی آج ہفتہ کے روز کی فلائٹ بک ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بلیک لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنا غیر قانونی ہے۔اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کا نام کسی بلیک لسٹ میں ہے؟۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ درخوست مفروضے
کی بنیاد پر ہے اور بغیر ہدایات لیے میں عدالت کی معاونت نہیں کر سکتا۔جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ہدایت کی کہ وہ ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔لاہور ہائیکورٹ میں مختصر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ہدایات نہیں لے سکا، لوگ چھٹی کرکے جا چکے ہیں،استدعا کی کہ کیس چھٹیوں کے بعد رکھ لیں۔دوران سماعت عدالت نے
استفسار کیا کہ شہباز شریف خود کہاں ہیں؟۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ شہباز شریف لاہور میں موجود ہیں جس پر عدالت نے شہباز شریف کو 2 بجے طلب کر لیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ انہوں نے ریٹرن ٹکٹ کیوں نہیں لی۔جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ کورونا کی وجہ سے ریٹرن ٹکٹ فوری ملنا ممکن نہیں لیکن اگر عدالت چاہتی ہے کہ واپسی کے وقت کا بتایا جائے تو اس حوالے سے یقین دہانی کرانے کو تیار ہیں۔بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کے طلب کرنے پر شہباز شریف، مریم اورنگزیب
اور عطا تارڑ کے ہمراہ لاہور ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کے میڈیکل میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ کوئی ایمر جنسی ہے۔ڈاکٹر سے اپواٹمنٹ تو آن لائن ہو جاتی ہے اور قرنطینہ تو 14 سے 10 دن کا کبھی نہیں سنا۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہاز شریف نے اتنے میڈیکل کے پراجیکٹ بنانے کا دعوی کیا وہاں اپنا علاج کروائیں۔جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ پوچھا یہ تھا کہ کیا بلیک لسٹ میں نام ہے؟انہوں نے مزید ریمارکس دئیے کہ ایک ایسا شخص جس کا نام ای سی ایل میں
نہیں ہے اور بلیک لسٹ کا معلوم نہیں، اس پر وفاقی حکومت کے تحفظات کیا ہیں؟۔جسٹس علی باقر نجفی نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ شہباز شریف واپس نہیں آئیں گے،کیا وفاقی حکومت کو کوئی گارنٹی چاہیے؟ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دئیے کہ درخوست گزار پہلے بھی ملک سے جا کر واپس آچکے ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت چاہیے، چھٹیوں کی وجہ سے لوگ جا چکے ہیں۔علاوہ ازیں اس موقع پر سرکاری وکیل نے شہباز شریف کا
نواز شریف کے ساتھ برطانیہ جانے کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا۔ہمیں وقت دیا جائے تاکہ ہم دیگر اداروں سے مشاورت کرلیں۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف نے عدالت میں گارنٹی دی تھی، اس میں تین باتیں طے ہوئی تھیں، ایک شرط کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ جمع کروائی جائے گی، نواز شریف کی طبیعت بہتر ہوگی تو واپس آئیں گے۔اس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ یہ معاملہ نواز شریف کا نہیں ہے۔سرکاری وکیل نے کہا کہ شہباز شریف منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزم ہیں جبکہ گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو رہے ہیں۔جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کے باہر جانے سے
عدالتی کارروائی متاثر ہوگی؟۔جسٹس علی باقر نجفی نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ آپ کو باہر جانے کی کیا ایمر جنسی ہے؟ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ وہ کینسر کے مریض رہے ہیں اور مرض کا علاج نیو یارک اور لندن میں ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ڈاکٹر مارٹن سے ریگولر چیک اپ کراتا رہوں جبکہ جیل میں ہونے کی وجہ سے علاج میں تعطل آیا۔شہباز شریف نے کہا کہ جیل میں ہونے والے میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹ کی روشنی میں فوری علاج کی ضرورت ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا وطن واپس آنے کا کب تک کا ارادہ ہے۔شہباز شریف نے جواب دیا کہ جیسے ہی ڈاکٹرز نے علاج کے بعد جانے کا کہا میں فوری واپس آجاؤں گا، میں پہلے بھی عدالت سے نہیں بھاگا تھا۔جسٹس علی باقر نجفی کا استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف اپنی واپسی کی کوئی ضمانت دے سکتے ہیں۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ شہباز شریف کی 3 جولائی کو پاکستان واپسی کی
بھی ٹکٹ پیش کی۔دوران سماعت شہباز شریف نے کہا کہ میں ماں سے ملا، ان کے پاؤں کو ہاتھ لگایا اور پاکستان واپس آگیا کیونکہ میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں اور ملک کی خدمت کے لیے صحتمند رہنا چاہتا ہوں۔بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد شہباز شریف کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔کچھ دیر بعد فاضل جج نے مشروط فیصلہ سناتے ہوئے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے ان کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کا حکم دیدیا۔
عدالت نے شہباز شریف کو 8 ہفتے کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دیدی جو 8مئی سے 3 جولائی تک ہو گی۔عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف پہلے بھی مشروط اجازت پر بیرون ملک جا چکے ہیں۔ شہباز شریف 8 مئی سے 3جولائی میڈیکل چیک اپ کے لیے برطانیہ جا سکتے ہیں۔فاضل عدالت نے لاہور ہائیکورٹ نے 5 جولائی کے لیے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دئیے۔