کراچی (آن لائن)عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے الیکٹرونک ووٹنگ مشینز کو پاکستانی جمہوریت کیلئے لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ انہوں نے کہا ابھی ڈسکہ الیکشن کا مسئلہ ذہن سے نکلا نہیں تھا کہ بلدیہ ٹاؤن این اے 249 کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ غیر سرکاری
طور پر منتخب شدہ پی پی امیدوار کے برتری والے ووٹ اْن ووٹوں سے بھی کم نکلے جو رد شدہ ہیں۔ ٹرن آؤٹ تقریباً 22 فیصد رہا۔ جبکہ 2018ء کے الیکشن میں یہ 40 فیصد تھا۔ فوراً سے ن لیگ کے امیدوار نے دوبارہ گنتی اور رسیدوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی فارنسک آڈٹ کی استدعا کردی۔ اس مرتبہ 2018ء کی کامیاب پارٹی یعنی پی ٹی آئی تقریباً آخری نمبر پر نظر آئی۔ ان حالات میں وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر انتخابی قوانین کی اصلاحات کا معاملہ اٹھا دیا، جو آناً فاناً میں پی پی اور ن لیگ نے اس بنیاد پر رد کیا کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین (EVM’s) کی اصطلاح پاکستانی مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ انہوں نے بتایا کہ دراصل یہ صرف EVM’s کا مسئلہ نہیں خود الیکشنز ایکٹ 2017ء میں بھی سقم ہیں، جس میں پہلے کے قوانین کو یکجا کرکے ایک چوں چوں کا مربہ بنایا گیا ہے۔ اس طرح ووٹ ڈالنا ایک نہایت پیچیدہ عمل بن گیا ہے اور ووٹر گھر سے نکلنے پر حقیقتاً گھبراتا ہے، نتیجہ ٹرن آؤٹس کا مستقل انحطاط۔ اس کے برعکس EVM’s کے استعمال کیلئے مخصوص یومِ الیکشن کے علاوہ ووٹر، اپنی آسانی کے مطابق، دنوں پہلے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اور نتیجتاً الیکشن کے دن لمبی لمبی قطاریں اور دیگر مشکلات ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔ آج کے دور میں بھارت کے علاوہ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں EVM’s
کا ہی رواج ہے۔ اور کبھی الیکشن میں دھاندلی کی آواز سننے میں نہیں آتی۔ امریکہ کے پچھلے صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی انتہائی کاوشوں کے باوجود کوئی دھاندلی ثابت نہ ہوسکی۔ دوئم یہ کہ اب جب ہم سمندر پار پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دینے جا رہے ہیں اور بیلیٹ ڈاک کے ذریعے بھی وصول ہوا کریں گے تو موجودہ نظام میں اس کی
کوئی معتبر گنجائش نہیں۔ EVM’s کی اصلاحات کی بات عمران خان نے کی ہے، جبکہ اسے رد ن لیگ اور پی پی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نگاہ میں پی ٹی آئی کا موقف اصولی ہونے کے سبب درست ہے۔ وقت بھی اصلاحات کیلئے موزوں ہے، کیونکہ تھوڑے ہی عرصے میں بلدیاتی انتخابات ہونے کو ہیں جہاں اس نظام کو متعارف کرایا جاسکتا ہے۔ اور 2023ء کے عام الیکشن تک اس میں پختگی لائی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان میں جمہوریت ایک سہانہ خواب ہی رہے گی۔