کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتےہوئےسابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ مجھے بلا کر کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کریں، میں نے کہا کہ میرے ٹی آر اوز میں یہ نہیں آتا، پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے ہم غیرقانونی کام کیسے کرسکتے ہیں وہ بھی ایک جج کے خلاف۔ وزیراعظم نے کہا محمد بن سلمان جو
کہتا ہے وہ ہوتا ہے، میں نے کہا سعودی عرب میں بادشاہت ہے پاکستان میں جمہوریت ہے، پاکستان میں صرف گرفتار کرنا نہیں ہوتا جرم بھی ثابت کرنا ہوتا ہے، یہ خواجہ آصف پر غداری کیس بناناچاہتے تھے۔سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا کہ مجھے وزیراعظم ہاؤس بلا یا گیا جہاں ان سے ملاقات ہوئی، وزیراعظم نے کہا کہ آپ قابل افسر ہیں کام شروع کریں ہمت کریں آ پ کرسکتے ہیں، اس وقت تک مجھے نہیں پتا تھا کہ کیس کیا ہے، شہزاد اکبر کے کمرے میں گئے تو کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کیس بنانا ہے اور انکوائری کرنی ہے، وہاں سے میں، اعظم خان اور شہزاد اکبر تینوں فروغ نسیم کے آفس گئے جہاں ڈاکٹر اشفاق بھی موجود تھے، او ای سی ڈی کا ڈیٹا ڈاکٹر اشفاق کے پاس تھا، ہم فروغ نسیم کے آفس گئے وہ بھی کنوینس تھے کہ ایف آئی اے یہ کیس بنائے، میں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کیخلاف انکوائری ایف آئی اے کا نہیں سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے، میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ہمارے ٹی آر اوز میں یہ نہیں آتا، انہو ں نے کہا کہ ایف بی آر اور آپ مل کر انکوائری کرو جسے میں نے مسترد
کردیا، ہائیکورٹ کا جج ایک آرڈر سے مجھے عہدے سے ہٹاسکتا تھا، مجھے پتا تھا جیوڈیشل مجسٹریٹ سے سپریم کورٹ کے جج تک میں انکوائری نہیں کرسکتا، پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے وہ غیرقانونی کام اور وہ بھی ایک جج کے خلاف کیسے کرسکتا ہے ۔ بشیر میمن نے بتایا کہ فروغ نسیم جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف منی لانڈرنگ کا کیس بناناچاہتے تھے، ان کا کہنا تھا
کہ منی لانڈرنگ کا کیس کرنا آپ کا مینڈیٹ ہے، میرا موقف تھا کہ حکومت کے کہنے پر جج کیخلاف منی لانڈرنگ کا کیس نہیں کرسکتی،سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہمیں کیس کرنے کیلئے کہہ سکتی ہے، اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ مشاورت کی تو انہوں نے بھی کہا کہ میرا موقف درست ہے، پاکستان میں آئین او ر سپریم کورٹ ہے، بحیثیت پولیس افسر تجربہ ہے کہ عدلیہ کے رولز ریگولیشن
میں ہم نہیں جاسکتے، میرا اختیار ہی نہیں تھا میں سمجھتا تھا اپنے ٹی او آرز سے آگے بڑھ جاؤں، ڈاکٹر اشفاق کا خیال تھا میں یہ کرسکتا ہوں میں نے کہا پھر آپ کریں، میں نے انہیں سمجھایا بھی کہ آپ اپنے ساتھ کیا کررہے ہو، اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اوپن انکوائری کروالیں ، شہزاد اکبر نے ایک مہینے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی فیملی کی ٹریولنگ ہسٹری کا پوچھا، میں نے کہا آپ نے
ابھی تک جان نہیں چھوڑی ایسا مت کریں، وزیراعظم کی مجھ سے ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔بشیر میمن نے بتایا کہ میں نے ریٹائرمنٹ سے پندرہ دن پہلے نوکری سے استعفیٰ دیا تھا، مجھے غلط او ایس ڈی بنایا گیا تھا حالانکہ پندرہ دن پہلے ٹرانسفر بھی نہیں کیا جاتا، مجھے پتا تھا میرا نقصان ہوگا اس کے باوجود استعفیٰ دیا۔بشیر میمن نے کہا کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ
شہباز، کیپٹن صفدر اور سلمان شہباز کیخلاف کیس بنانے کیلئے زیادہ زور تھا، مریم نواز کے خلاف ایجوکیشن ریفارمز پر انکوائری کیلئے کہا گیا، میں نے کہا چٹھی لکھ دیں مگر وہ چٹھی نہیں آئی، جج ویڈیو اسکینڈل میں مریم نواز کی پریس کانفرنس پر بھی دہشتگردی کا کیس بنانے کیلئے کہا گیا، میری آخری سروس تھی پہلے کبھی نہیں گھبرایا اب کیوں گھبراتا، میں کیریئر کے عروج
پر پہنچ چکا تھا مجھے توسیع کی ضرورت نہیں تھی، ن لیگ کے لئے میرے دل میں سافٹ کارنر کیوں ہوگا، ن لیگ نے مجھے کوئی فیور نہیں دیا مجھے سینیارٹی پر گریڈ ملا، مسلم لیگ ن والے مجھے جانتے بھی نہیں ہیں، میں نے پنجاب میں آج تک نوکری نہیں کی، نواز شریف سے بحیثیت وزیراعظم ایئرپورٹ پر پروٹوکول میں ملاقاتیں ہوئیں۔ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کیخلاف کارروائی
ایف آئی اے کا مینڈیٹ نہیں تھا، ایف آئی اے کا مینڈیٹ وفاقی حکومت اور بینکنگ کرائمز کا ہوتا ہے، انہیں بتایا کہ یہ صوبائی اینٹی کرپشن کا مینڈیٹ ہے ان سے کیس کروالیں، نیب صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے کیس کرسکتا ہے اس لیے نیب سے کیس کروالیے، چیف ایگزیکٹو وزیراعظم عمران خان نے مجھے کہا کہ میں نے نیب سے کہا اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگیا اسے وفاداری کہتے
ہیں، وزیراعظم نے مجھے کہا تھا کہ محمد بن سلمان کسی کو جو کہتا ہے اس کا کوئی سرکاری محکمہ اسے منع نہیں کرتا، تم ہر بات میں کہتے ہو آئین قانون یہ کہتا ہے،میں نے کہا سعودی عرب میں بادشاہت ہے، پاکستان میں جمہوریت ہے صرف گرفتار نہیں کرنا ہوتا عدالت میں جرم بھی ثابت کرنا ہے، ہمیں دستاویز چاہئے ہوتی ہیں، ثبوت چاہئے ہوتا ہے ہم 14روز سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں لے سکتے،
وہ چاہ رہے تھے کہ وہ جو کہہ دیں وہی قانون ہوجائے، کسی کے کہنے سے کوئی بھی چیز قانون نہیں بن جاتی، عدالت کوئی حکم دے تو اس پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ بشیر میمن نے کہا کہ زیادہ تر زور نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، احسن اقبال، جاوید لطیف، شاہد خاقان عباسی ،رانا ثناء اللہ ، خواجہ آصف ، خرم دستگیر خان، مریم اورنگزیب، خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ
نواز کھوکھر، اسفند یار ولی، امیر مقام اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کیخلاف کیس بنانے کیلئے تھا، ان کا ہر چیز پر موقف تھا کہ اپوزیشن کو چھوڑنا نہیں ہے، یہ خواجہ آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانا چاہتے تھے، اقامہ رکھنا جرم نہیں یہ ورک پرمٹ ہے، اقامہ رکھنا غداری کے زمرے میں کیسے آگیا، میں کہتا تھا غداری کا کیس بنانے کیلئے عدالت میں ثبوت دینا ہوگا کہ انہوں نے
کون سا ملکی راز دبئی میں کسی کو دیا، وہ کہتے تھے فی الحال پکڑو پھر دیکھیں گے، مریم نواز کیلئے بھی وزیراعظم نے کہا کہ فی الحال اس بات پر پکڑلو کہ انہوں نے پریس کانفرنس کر کے جج ارشد ملک کو ٹیررائز کردیا، میں نے کہا کہ پریس کانفرنس پر پیمرا کا قانون لاگو ہوسکتا ہے، سوشل میڈیا پر فرسٹ لیڈی کی تصویر شیئر ہونے پر مریم نواز کیخلاف دہشتگردی کا مقدمہ کرنے کیلئے
کہا گیا، میں نے کہا کہ یہ دہشتگردی کا مقدمہ نہیں بنتا اس پر بدمزگی ہوئی۔ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ میں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے عمرے پر جانے کیلئے چھٹی لی تھی، وزیراعظم نے دو دن پہلے مجھے بلالیا کہ اہم بات ہوگی، بات اس پر ہوئی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف ، خواجہ آصف پر کچھ نہیں کیا، عارف نقوی پر بات ہوئی تو میں نے کہا کہ عارف نقوی کے پاس ملک کے پیسے ہیں، ہم نے عارف نقوی پر 87ارب روپے ثابت کیئے تھے، یہ
سوئی سدرن گیس کے پیسے تھے جو عارف نقوی نہیں دے رہا تھا، وزیراعظم پہلے بھی تین چار دفعہ مجھے کہہ چکے تھے کہ تم نے ایک کمپنی کو تباہ کردیا اس دن تو بہت زیادہ ناراض تھے، میں نے کہا پیسے عارف نقوی نے کھائے ہیں آپ کیوں ناراض ہورہے ہیں تو کہنے لگے تمہیں پتا ہے وہ میرا دوست ہے ، کسی عدالتی فورم پر یا انکوائری میں تمام حالات و واقعات پر اپنا ورژن دینے کیلئے تیار ہوں، سپریم کورٹ جب چاہے کسی کو بلاسکتا ہے میں قانون پسند شہری ہوں۔