کراچی (این این آئی) کراچی سینٹرل پولیس آفس کے سامنے خود سوزی کرنے والا پولیس افسر دوران علاج اسپتال میں چل بسا۔ میت اسٹیل ٹائون قبرستان میں سپردخاک کردی گئی،گلشن حدید میں مقیم اہل خانہ میں قیامت صغرا برپا،متاثرہ پولیس اہلکار 23 اپریل سے معطل تھا، دوران علاج متوفی سب انسپکٹر مظفر علی چانڈیو نے چار اہلکاروں کو تنگ کرنے پر انتہائی اقدام اٹھانے کا بیان دے دیاتھا،
والد میرپور خاص کے تھانے میں سب اسپکٹر تھا جسے وہاں کے ڈی ایس پی سمیت دیگر اہلکار بلیک کر رکے اتنا تنگ کر رہے تھے کہ وہ خود سوزہ پر مجبور ہوگیا ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے بڑے بیٹے ساجد چانڈیو کی صحافیوں سے گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز سینٹرل پولیس آفس کے سامنے اقدام خودسوزی کرنے والا سب انسپیکٹر 57سالہ مظفر علی چانڈیو ولد محمد ایوب چانڈیو دوران علاج نجی ہسپتال میں دم توڑ گیاسب انسپکٹر مظفر علی چاندیو کو سول اسپتال کے برنس سینٹر سے گلشن اقبال کے نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا، متوفی مظفر علی چانڈیو کی میت گلشن حدید فیز 2 میں ان کے اہل خانہ کے حوالے کردی گئی جبکہ میت کو اسٹیل ٹان قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا اس سلسلے میں متوفی پولیس افسر کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ گذشتہ 38 سال سے محکمہ پولیس سے وابستہ تھے جو میرپور خاص تھانے میں سب انسپیکٹر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے اسی دوران ان کے اپنے افسر ڈی ایس پی ایاز گھنور سے اختلافات ہوگئے جس کے خلاف انہوں نے اعلی افسران کو تحریری طور پر متعدد درخواستیں ثبوتوں کے ساتھ دے رکھی تھی لیکن ان کی شنوائی ہونے کے بجائے ان پر لیڈی پولیس افسر کو ہراساں کرنے سمیت دیگر الزامات لگا کر دو افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی بٹھادی گئی جن میں خود ڈی ایس پی ایاز گھنور اور اے ایس پی علینہ راجپر شامل تھیں، خودسوزی سے ایک روز قبل وہ میمن گوٹھ ہسپتال میں کورونا ویکسین کروا رہے تھے کہ انہیں انکوائری افسران کے مسلسل فون آنے لگے کہ وہ فوری طور پر دفتر پہنچیں، متوفی سب انسپیکٹر نے دو ران علاج اسپتال میں بیان دیا ہے کہ اسے 4 پولیس افسران و اہلکار ڈی ایس پی ایاز گھنور، اکانٹنٹ گلزار، ہیڈ کانسٹیبل ٹیلی کمیونیکیشن دریا خان، ریڈر ٹی کمیونیکیشن عمران تنگ کر رہے تھے، دوران انکوائری متوفی کو
23 اپریل کو معطل کیا گیا تھا، ا س سلسلے میں متوفی سب انسپیکٹر مظفر علی چانڈیو کے بڑے بیٹے سجاد علی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ذمہ دار اور فرض شناس پولیس افسر تھے جو رٹائرمنٹ کے قریب تھے ایسی حالت میں انہیں مذکورہ بالہ پولیس افسران نے اتنا تنگ اور بلیک میل کیا کہ وہ خود سوزی پر مجبور ہوگئے انہوں نے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور چار بیٹے سوگوار چھوڑے ہیں متوفی سب انسپیکٹر کے بڑے بھائی سکندر اور سماجی رہنما سراج چانڈیو کا کہنا تھا کہ
محکمہ پولیس کا عام عوام سے رویہ ظالمانہ رہا ہے لیکن اب پولیس والے بھی محکمہ پولیس کے کالی بھیڑوں سے تنگ آکر خو د سوزی پر مجبور ہیں، انہوں نے کہا کہ دوران علاج سب انسپیکٹر مظفر علی چانڈیو نے جن پولیس اہلکاروں کو مرید الزام ٹھرایا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے بصورت دیگر وہ عدالت میں پٹیشن دائر کریں گے۔