کوئٹہ (آن لائن)کوئٹہ دھماکے ایمل کانسی اور شاہ زیب شاہد، شب و روز ساتھ گزارنے والے دو دوست جو دنیا سے رخصت بھی اکٹھے ہوئے ایمل خان کانسی کے اہلِخانہ ان کی شادی کی تیاریاں کر رہے تھے، جو عید کے بعد ہونا قرار پائی تھی۔ ایمل چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، شاید اسی لیے ان کی شادی دھوم دھام سے ہونی
تھی۔ مگر کوئٹہ میں گذشتہ رات ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی نے (ان کے خاندان سمیت)کئی لوگوں کو زندہ درگور کر دیا ہے۔یہ الفظ سرینا ہوٹل دھماکے میں ہلاک ہونے والے والے ایمل خان کانسی کے کزن ایاز خان بازئی کے ہیں۔ایاز خان بازئی بتاتے ہیں کہ ایمل اکثر اوقات سرینا ہوٹل میں ملازمت کرنے والے اور گذشتہ رات ان ہی کے ساتھ ہلاک ہونے والے اپنے دوست شاہ زیب شاہد سے ملنے اور کافی پینے جایا کرتے تھے۔ واقعہ کے روز بھی وہ شاہ زیب سے ملاقات کرنے گئے ہوئے تھے۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ شاہ زیب اپنے دوست ایمل خان کو باہر پارکنگ میں ملنے یا الوداع کرنے گئے تھے جہاں پر ہونے والے دھماکے میں دونوں اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ایمل خان کانسی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ ارباب ظاہر کانسی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ ان کے والد سیکریٹری کی پوزیشن سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ایمل خان کانسی نے چند ماہ قبل محکمہ وائلڈ لائف میں ملازمت اختیار کی تھی تاہم وہ یونیورسٹی آف بلوچستان سے فنانس میں پی ایچ ڈی بھی کر رہے تھے۔حال ہی میں ان کا سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک تحقیقاتی مقالہ یورپین جنرل آف ٹیکنالوجی میں بھی شائع ہوا تھا۔اس کے ساتھ ہلاک ہونے والے ان کے دوست شاہ زیب شاہد نے سنہ 2015 میں یونیورسٹی آف بلوچستان سے
کمپیوٹر اور انفارمیشن سائنسز میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انھوں نے سنہ 2014 میں سرینا ہوٹل میں ملازمت شروع کی تھی۔اس سے قبل ایک سال تک وہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی میں سیلز پروموشن افسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے تھے۔شاہ زیب شاہد نے تعلیم کے ہمراہ اپنی ملازمت بھی جاری رکھی تھی۔یاز خان بازئی کا
کہنا تھا کہ گھر سے جاتے ہوئے ایمل خان کانسی نے اپنے گھر والوں کو بتایا تھا کہ وہ سرینا میں کافی پینے جا رہے ہیں۔اس کا بڑا واضح مطلب ہوتا تھا کہ وہ شاہ زیب شاہد سے ملنے جا رہے ہیں۔ وہ دونوں اکثر دن کا کوئی نہ کوئی وقت ساتھ گزارتے تھے۔بازئی کے مطابق عموما یہ وقت رات ہی کا ہوتا تھا جب شاہ زیب اپنی نوکری سے
فراغت حاصل کر لیتے تھے۔ اس وقت وہ دوست اکھٹے ہوتے، گپ شپ کرتے، منصوبے بناتے اور ایمل کانسی کچھ دیر کی ملاقات کے بعد واپس گھر چلے جاتے تھے۔ایاز خان بازئی کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ جس وقت یہ دھماکہ ہوا اس وقت شاہ زیب، ایمل خان کانسی کو چھوڑنے یا ان کا استقبال کرنے کے لیے پارکنگ تک گئے تھے۔کوئٹہ میں
دونوں کے ایک مشترک دوست صبور خان کا کہنا تھا کہ ایمل خان کانسی اپنی شادی کی تیاریوں میں بھی مصروف تھے اور ان کی شاہ زیب شاہد کے ساتھ ہونے والی آخری ملاقات درحقیقت شادی کے فنکشن کے حوالے سے تبادلہ خیال اور مشوروں سے متعلق رہی ہو گی۔چار سال تک یونیورسٹی میں ایمل خان کانسی کے کلاس فیلو رہنے والے
دلاور خان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ سنہ 2008 سے لے کر 2012 تک کلاس فیلو رہے جس کے بعد سب اپنی اپنی ملازمتوں میں مصروف ہو گئے اور مختلف شہروں میں روانہ ہو گئے لیکن اس دوران سب دوستوں کا ایک دوسرے کے ساتھ واٹس ایپ گروپ کے ذریعے رابطہ رہتا تھا۔دلاور کے مطابق اس واٹس ایپ گروپ کے سب سے فعال
ممبر ایمل خان کانسی تھے جو اکثر زمانہِ طالب علمی کی یادیں تازہ کرتے رہتے تھیدلاور خان کا کہنا تھا کہ زمانہِ طالب علمی میں بھی ایمل انتہائی فعال طالب علم تھے۔ وہ نہ صرف تعلیم کے معاملے میں بہت آگے تھے بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بہت فعال رہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جس محفل اور گروپ میں وہ موجود ہوتے تھے
وہاں ان کی دلچسپ باتیں قہقہے بکھیر رہی ہوتی تھی۔دلاور نے مزید بتایا کہ ایمل ایک حساس دل رکھنے والے انسان تھے اور اکثر بلوچستان کے غریب افراد کی مدد کرتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ ہمارے زمانہ طالب علمی میں کئی ایسے واقعات ہوئے جن میں ہمارے کلاس فیلوز کے لیے فیس اور دیگر اخرجات کی بنا پر تعلیم کا سلسلہ جاری
رکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس موقع پر ایمل خان کانسی میدان میں آتے اور ایسے طالب علموں کے لیے نہ صرف فنڈ اکٹھے کرنے کی مہم چلاتے بلکہ خود بھی اس میں حصہ ڈالتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایمل کی وجہ سے کئی لوگ اپنی تعلیم جاری رکھنے میں کامیاب ہوئے اور آج وہ کامیاب اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔