ہفتہ‬‮ ، 30 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کمشنر کراچی کو فارغ کریں، انہیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، انہیں کہاں سے امپورٹ کیا؟ ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں،چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر اور ڈی جی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ربڑ اسٹمپ قرار دیدیا

datetime 8  اپریل‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی)سپریم کورٹ نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(ایس بی سی اے) کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہارکیاہے جبکہ شارع فیصل اور شاہراہ قائدین کے سنگم پر قائم کثیر المنزلہ رہائشی عمارت نسلہ ٹار کو گرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کمشنر کراچی اور ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(ایس بی سی اے)محض

ربڑ اسٹمپ ہیں، کراچی کو مختیار کاروں میں بانٹ دیا کیا؟ اگر یہاں مختیار کار شہر کو آپریٹ کر رہا ہے تو پھر شہر گیا، کراچی میں مختیار کار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے،کمشنر کراچی کو فارغ کریں، انہیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، انہیں کہاں سے امپورٹ کیا؟ ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں، کمشنر کراچی، ڈی جی ایس بی سی اے کو معلوم نہیں کتنے نیب ریفرنس بنیں گے ان کے خلاف،ایس بی سی اے بلڈرز کا ایجنٹ ہے، اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے، آپ لوگ کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے، وزیراعلی ہائوس پر کسی کو عمارت بنوا دیں گے، دنیا کو معلوم ہے ایس بی سی اے کو کون چلا رہا ہے۔جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شہرقائد میں تجاوزات کے خاتمے سمیت دیگراہم کیسز کی سماعت کی ۔اس موقع پر گجر نالے کے آس پاس تجاوزات کیخلاف آپریشن کے متاثرین کی بڑی تعداد عدالت کے باہر جمع ہوئی اور گھر کے بدلے گھر دو کے نعرے لگائے۔ پینشنرز اور اساتذہ تنظیموں نے بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا اور چیف جسٹس انصاف دو کے نعرے لگائے۔چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔ کمشنر کراچی کی

جانب سے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ پیش کرنے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمشنر کراچی سمجھ رہے ہیں کہ عدالت ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پر کام کرے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمشنر کراچی سامنے آئیں، چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ آپ سے جو کام کرنے کو کہا تھا کیا

ہوا؟ کمشنر کراچی کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ پیش کرنے پر عدالت برہم ہو گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس رپورٹ میں ہر جگہ لکھا ہے رپورٹ کا انتظار ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کمشنر کراچی کو فارغ کریں، ہمارے سامنے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ کیسے پیش کی؟ ہم نے سب احکامات آپ کو خود دیئے

تھے، کمشنر کراچی نے عدالت میں کہا کہ ہاکی گرائونڈ اور کھیل کے میدان بنا دیئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں، کچھ معلوم نہیں، ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے کہا کہ کمشنر کراچی کام کر رہے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انہیں ڈپٹی کمشنرز کے بجائے اپنی رپورٹ

پیش کرنی چاہیے تھی، کمشنر کراچی نے کہا کہ کڈنی پارک ہو یا سب جگہ کام، اپنی نگرانی میں کروا رہا ہوں۔کمشنر کراچی نے بتایا کہ فٹ بال گرائونڈ اور پارک بن گئے ہیں وزٹ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، میں رائل پارک، کڈنی ہل پارک اور دیگر جگہوں پر ذاتی طور پر خود گیا ہوں، رائل پارک ایک ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔چیف

جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ بتائیں ہل پارک کا کیا ہوا؟۔ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ کچھ مکینوں نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی ہیں۔ وکیل ہل پارک متاثرین بیرسٹرصلاح الدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔وکیل متاثرین بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت میں کہا کہ ہم نے جس سے گھر خریدا ہے اس سے معاوضہ تو دلوایا

جائے،25سال سے ہمارے گھر بنے ہوئے ہیں، نقشے سندھ حکومت نے پاس کیے۔اس موقف پر سپریم کورٹ کے بینچ نے ریمارکس دیئے کہ بچے تو نہیں ہیں جب گھر خریدتے ہیں سب پتہ ہوتا ہے۔وکیل متاثرین نے عدالت سے کہا کہ جنہوں نے ہل پارک کی جگہ پر غیر قانونی تعمیرات کی اجازات دی ان کے خلاف کارروائی کی جائے، 13 سو

ملین روپے بلڈر نے الاٹیز سے وصول کئے ہیں ۔وکیل مکین ہل پارک نے عدالت سے استدعا کی کہ 4ماہ کی مہلت دے دی جائے، چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک فیملی نے 3 گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے، ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریقین بننے کی درخواست مسترد کر دی گئی ۔کمشنر کراچی نے کہا

کہ تیجوری ہائٹس اور کریک سائیڈ شاپنگ سینٹر کو عدالتی حکم پر سیل کر دیا، رائیل پارک میں سب ٹاور گرا دیے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ باغ ابن قاسم کی کیا صورتحال ہے؟ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ باغ ابن قاسم میں سبزہ اگانے کا کام جاری ہے،باغ ابنِ قاسم میں تعمیرات کو منہدم کردیا گیاہے۔عدالت نے کمشنر کراچی کو باغ ابن

قاسم کی تزئین و آرائش مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ بتائیں شاہراہ قائدین نالے پر قائم عمارت کا کیا ہوا؟ کمشنر کراچی نے کہا کہ ایس بی سی سے نے بتایا ہے کہ نالے پر عمارت نہیں ہے۔جواب پر چیف جسٹس گلزار احمد کمشنر کراچی پر برہم ہوگئے

اور کہا کہ ایس بی سی اے کو چھوڑیں، آپ کو براہ راست حکم کا مطلب آپ کو جواب دینا ہے، پوری بلڈنگ ہی نالے پر کھڑی ہے۔ ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں، اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے۔ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ شاہراہ قائدین پر نسلہ ٹاور سے متعلق بلڈر کو بلا کر پوچھا جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہاں ایس بی سی سے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہا ہے۔ 50سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟ کیسے اچانک لیز کردی جاتی ہے ؟ابھی نسلہ ٹاور کی لیز منسوخ کردیتے ہیں۔س موقع پر سپریم کورٹ نے ڈی جی ایس بی سے اے کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ نرسری پر واقع نسلہ ٹاور کو

گرانے کا کام شروع کریں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ کس نے لیز دی وہ بھی ذمہ دار ہے۔ نسلہ ٹاور غیرقانونی بنا ہوا ہے، بلڈر تو غائب ہے۔ بلڈر نے رپورٹ بھی اپنے حق میں بنوالی ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ڈی جی ایس بی سی اے کہاں ہیں ؟ آپ ہمارے سامنے کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں۔ ڈی جی ایس بی سی اے نے

عدالت کو جواب دیا کہ سٹرک کی ری الاٹمنٹ سے پلاٹ نکلا۔عدالت نے کہا کہ کیا پھر بییچ دیں گے، کل سپریم کورٹ کی عمارت پر دعوی کردیں گے۔ سپریم کورٹ کا لے آوٹ پلان لے آئیں گے تو ہم کیا کریں گے؟۔ آپ لوگ کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے۔ آپ لوگ کل وزیراعلی ہائوس پر کسی کو عمارت بنوا دیں گے۔

ہمارے سامنے ایسی غلط باتیں مت کریں، سب معلوم ہے۔ آپ ریکارڈ ڈیجیٹلائز کیوں نہیں کرتے؟۔ دنیا کو معلوم ہے ایس بی سی اے کون چلا رہا ہے۔ ایک مولوی کو ڈی جی ایس بی سی اے بنا کر لاکھڑا کردیا گیا۔ آپ کا خیال ہے کہ آپ ڈی جی ایس بی سی اے ہیں۔ ہر ماہ ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتا ہے۔ سب رجسٹرار آفس، ایس بی

سی اے اور ریونیو میں زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے۔ سب معلوم ہے کیا ہو رہا ہے، ان اداروں کا حال برا ہے ، آپ کچھ اعتراض کریں گے تو آپ کو ہٹا دیا جائے گا۔،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب جعلی دستاویزات ہیں ایس بی سی اے کا اپر رول بھی جعلی ہے۔ مختیار کار کون ہوتا ہے، یہ حکومت پاکستان کی لیز کردہ زمینیں ہیں۔ پورے کراچی کو

مختیار کاروں پر بانٹ دیا ہے کیا؟۔ کراچی تو کیپیٹل رہا ہے کیا ہو رہا ہے کراچی کے ساتھ ؟۔ پی ای سی ایچ ایس اور سندھی مسلم میں بھی مختیار کار آپریٹ کررہا ہے تو گئی ساری زمین۔ کسی کو پرواہ نہیں ہے شہر کی، کیا ہور ہا ہے،کوئی فکر مند نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ آنکھیں کھولیں۔ ایس بی سی اے والے کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟۔ فیروز آباد

کا مختیار کار کون ہے؟ اس طرح کے کتنے کاغذ نکالے ہیں اس نے؟۔اس پر ڈی جی ایس بی اے نے کہا کہ مہلت دے دیں تو مزید تحقئقات کرلیں گے۔ عدالت نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس شہر کے میں بارے میں کیا جانتے ہیں؟۔ آپ کو کراچی کی تاریخ بھی نہیں معلوم کیا تھا کراچی۔ ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ

کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلی سندھ کو بلائیں وہ بتائیں گے فیروزآباد میں مختیار کار کیا کر رہا ہے؟۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکل تک مہلت دے دیں ہم تفصیل پیش کردیں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تو مختیار کار ڈی ایچ اے آنے والا ہے کچھ دیر میں۔ فیروز آباد کا مختیار کار ہوسکتا ہے تو ڈی ایچ اے کا بھی

نکل آے گا۔ تاہم اطمینان بخش جواب نہ دینے پر عدالت کی جانب سے کمشنر کراچی کی سرزنش کی گئی۔عدالتی بینچ نے کہا کہ ان کو معلوم ہی نہیں کراچی کیسے چل رہا ہے؟، کیا سسٹم آپریٹ کررہا ہے۔ ان کو معلوم نہیں ریونیو کے کتنے کیسز بنیں گے ان پر، یہ تو ربر اسٹیمپ کمشنر ہے۔ ان مولانا صاحب( ڈی جی ایس بی سی اے)کو بھی نہیں

معلوم ہے۔ ہمارے لئے اتنی مشکلات ہورہی ہیں عام لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟۔ سی ایم صاحب کی رپورٹ بھی دیکھ لی ہم نے۔ انہوں نے کہا ہے کہ سیاسی وجوہات پر یہ چیزیں ان پر ڈال دی گئیں۔ کام کی باتیں تو بہت کم کی ہم رپورٹ میں غیر ضروری باتیں ہیں۔ یہ بھی نہیں بتایا شہر کو کیسے ٹھیک کریں گے۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل

نے عدالت کو بتایا کہ وسیم اختر صاحب نے الزامات لگائے تھے، تو ان کا جواب دے دیا تھا۔ جس پر دوبار چیف جسٹس نے پوچھا کہ چھوڑیں سیاسی باتیں وسیم صاحب نے کیا کہا اور کیا نہیں۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو یہاں آئیں اتنی دیر سے باتیں ہورہی ہیں آپ اٹھ کر کیوں نہیں آے؟۔فیروز آباد میں مختیار کار تعینات کرنے کے معاملہ پر

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلی سندھ کو کہیں یہاں آئیں اور وضاحت دیں، تھوڑی دیر میں مختیار کار ڈی ایچ اے بھی آنے والا ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب یہاں مختیار کار ہے تو پھر ڈی ایچ اے میں بھی تو مختیار کار ہوگا، کراچی کو مختیار کاروں میں بانٹ دیا کیا؟ اگر یہاں

مختیار کار شہر کو آپریٹ کر رہا ہے تو پھر شہر گیا، کراچی میں مختیار کار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے، یہاں تو اب کسی کی جائیداد محفوظ نہیں رہے گی، فیروز آباد میں مختیار کار پہلی مرتبہ سن رہا ہوں، یہاں سماعت کرنا بے کار ہے ہمارا، مختیار کار آگیا تو نو مور کراچی۔ عدالت نے مختیار کار فیروز آباد کو فوری طلب کرلیا۔

موضوعات:



کالم



ایک ہی بار


میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…