کراچی (آن لائن)ترجمان سندھ حکومت اور مشیر قانون و ماحولیات بیرسٹر مرتضٰی وہاب نے کہا ہے کہ پریس کانفرنس کا مقصد پاکستانیوں کو درپیش سب سے بڑے مسئلہ کی نشاندہی کرنا ہے اور وزیراعظم کو آگاہ کرنا ہے جو عوام کے مسائل سے میلوں دور رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی سے لیکر ہر فرد کی وزیراعظم نے حقیقت
میں چیخیں نکال دی ہیں۔ میری وزیراعظم سے گزارش ہے کہ خان صاحب وقت آگیا ہے عرش سے اْتر کر فرش پر آجائیں کیونکہ آپ کے غیر دانشمندانہ اقدامات سے مافیاز اور اے ٹی ایمز تو مستفید ہوتے رہے مگر عوام پس کر رہ گئی ہے اور خان صاحب کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ معیشت کو پیروں پر کھڑا کردیا۔ وہ ایف بی آر کو روزانہ مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر معیشت مستحکم ہوگئی تو ماہ فروری میں مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد سے زیادہ کیوں رہی اور اگلے مہینے یہ شرح بڑھ کر 9.7 فیصد تک آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ معیشت اگر درست سمت میں جارہی ہے تو اسکے ثمرات عام آدمی کو کیوں نہیں مل رہے۔ اور معشیت کی مضبوطی کا فائدہ چند اے ٹی ایمز کو کیوں ہورہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج سندھ اسمبلی بلڈنگ کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر وفاق ٹیکس ٹارگٹ حاصل کررہا ہے تو موجودہ مالی سال میں 80.2 ارب سندھ کو کیوں کم دیئے ہیں۔ ہم سوال پوچھنے پر مجبور ہیں کیونکہ حقائق ترجمانوں کے دعوؤں کے برعکس ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیرونی قرضے بارہ فیصد بڑھ گئے ہیں مگر پی ٹی آئی کے رہنما کہتے ہیں تجارتی خسارہ کم کیا ہے اور فروری کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ایکسپورٹ چار فیصد کم اور امپورٹ میں اضافہ ہوا ہے مگر وزیراعظم نہیں مانتے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے روزگار دینے اور نوکریاں دینے کے وعدے کئے مگر ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے لوگوں کو بیروزگار کیا اور کہا کہ احساس سینٹر سے کھانا کھائیں۔ ترجمان سندھ حکومت نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ عدالتوں اور ججز کا احترام کرتا ہوں مگر کسی
کی شنوائی کیئے بغیر فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ایم پی ایز کا مؤقف سنے بغیر فیصلہ دیا گیا یہ آئین کی خلاف ورزی ہے جس طرح جج صاحبان حلف اٹھاتے ہیں اسی طرح ایم پی ایز ایم این ایز بھی حلف اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں تو کیا
حکومت ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کردے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ غیر منصفانہ تھا۔ یہ میونسپل ایڈمنسٹریشن کے اختیارات ہیں اس کی سزا ایم پی اے کو نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے ایک کیس میں عدالت نے بلایا اور میں چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو عدالت نے پابند بنایا ہے کہ گریڈ سولہ سے اوپر کسی
کو مستقل نہ کیا جائے۔ آئی بی اے ہیڈماسٹرز کیس میں ہائی کورٹ کے حیدرآباد اور کراچی بینچز کے الگ الگ فیصلے موجود ہیں۔ اساتذہ سمجھ لیں حکومت کی وجہ سے ان کو مسئلہ درپیش نہیں ہیں۔ اساتذہ سے مذاکرات بھی کئے گئے وہ جو چاہتے ہیں ہم نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی کے معاملات حکومت پر چھوڑ دیئے جائیں تو بہتر ہے۔