اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ہی ملنی چاہئیں اور کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹنگ بے شک خفیہ ہو لیکن سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی بنتی ہیں، ملک کی قسمت الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو سمجھے،کل مسلم لیگ(ن ) کے وکیل کو سنیں گے ، بار کو صرف عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی پر سنیں گے، کوئی سیاسی بات نہیں سنی جائے گی۔
سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کی ۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے تیار جواب جمع کروایا ہے کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 226 کا اطلاق ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 218 کے تحت شفاف الیکشن کرانا ذمہ داری ہے، آرٹیکل 218 کی تشریح سے 226 کو ڈی فیوز نہیں کیا جا سکتا اور آرٹیکل 226 کی سیکریسی کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا،قیامت تک ووٹ خفیہ رہنا آئین میں ہے نہ عدالتی فیصلوں میں۔ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ووٹ تا قیامت ہی خفیہ رہتا ہے۔ ووٹ دیکھنے کے لیے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرنا ہوں گی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا کیا مطلب ہے؟ سیاسی جماعت کی سینیٹ میں نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں، قومی اسمبلی کی ووٹنگ میں آزادانہ ووٹ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، سینیٹ انتخابات کے لیے قانون میں آزادانہ ووٹنگ کا لفظ شامل نہیں، الیکشن کمیشن متناسب نمائندگی کو کیسے یقینی بنائے گا، جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اتنی ملنی چاہئیں، کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمیشن ہوگا، صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سینیٹ سیٹیں نہ ملیں تو یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی، ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر
کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سینیٹ سیٹیں لے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا، الیکشن کمیشن کیسے تعین کرتا ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی سے ہوئے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے، آزادنہ ووٹ نہ دیا تو سینیٹ انتخابات الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے وکیل کو کل عدالت میں ہونا چاہیے کیس کسی بھی وقت ختم ہو جائے گا، پاکستان بار کو صرف عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی پر سنیں گے، پاکستان بار کونسل کی
کوئی سیاسی بات نہیں سنی جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینیٹ الیکشن کالعدم ہوجائیں گے، ووٹنگ بے شک خفیہ ہو لیکن سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی بنتی ہیں، پیسے دینے والوں کے پاس بھی کوئی سسٹم تو ہوتا ہے کہ بکنے والا ووٹ دے گا یا نہیں، الیکشن کمیشن کو معلوم ہے لیکن ہمیں بتا نہیں رہے، ووٹ خریدنے والے ووٹ ملنے کو کیسے یقینی بناتے ہیں، ملک کی قسمت الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو مزید بتایا گیا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کو روکنے کے لئے
نگران کمیٹی قائم کی ہے،مختلف شعبوں سے افسران ویجیلنس کمیٹی میں شامل ہوں گیے،ہر امیدوار سے ووٹوں کی خریدو فروخت نہ کرنے کا بیان حلفی لیا جائے گا،ان لائن شکایات سینٹر قائم کر دیا گیا ہے،ستمبر سے اب تک 11 سو سے زائد شکایات موصول ہوئیں،ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے،کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آج تک سینیٹ الیکشن میں جتنے ووٹوں کی خریدوفروخت ہوئی اس پر کمیشن نے کیا کارروائی کی ہے؟چیف الیکشن کمشنر نے موقف اپنایا کہ اس حوالے سے اب اقدامات کر لیتے ہیں،
جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ اب کر لیتے ہیں پہلے کیوں نہیں کیے؟آپ ایک آئینی ادارہ ہیں اور مکمل اختیارات رکھتے ہیں لیکن آپ آرام سے بیٹھے ہیں،آپ پورے ملک پر حکومت لے کر آتے ہیں اور آپ اسکو نارمل لے رہے ہیں،آپ ہمارے سامنے بس اپنا ایکٹ پڑھ دیتے ہیں،کیا ووٹوں کی خریدوفروخت سے ہونے والے نتائج قانونی تھے یا غیرقانونی؟مان لیا ووٹ خفیہ ہے لیکن اگر متناسب نمائندگی نہ ہو تو پھر کیا ہوگا، الیکشن کمیشن کیسے متناسب نمائندگی کو یقینی بنا سکتا ہے،ہم الیکشن کمیشن کو بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آپ کے اختیارات کیا ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے
ریمارکس دئیے کہ اگر ایک بندہ اے کو ووٹ دیتا ہے لیکن وہ بی کے نام نکلتا ہے اور وہ دعویٰ کرے کہ اس کا ووٹ تبدیل کیا گیا ہے تو کیا عدالت اسکا ووٹ منگوا سکتی ہے؟الیکشن کمیشن ایک خودمختار آئینی ادارہ ہے جس کے پاس وہ اختیارات ہیں جو کسی اور کے پاس نہیں،ایسے نتائج ایک دو دن کی بات نہیں آئندہ الیکشن تک اس کو جھیلنا پڑے گا، اگر متناسب نمائندگی نہ ہوگی تو سارا نظام جیم ہو جائے گا،الیکشن کمیشن ووٹ چوری ہونے ہی کیوں دے،الیکشن کمیشن نے ووٹ کو تحفظ دینا ہوتا ہے،
اگر متناسب نمائندگی نہ ہو تو سسٹم کیسے چلے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کمیشن کے پاس وہ اختیارات ہیں جو سپریم کورٹ کے پاس ہیں،آپ کسی کو بھی نوٹس جاری کر سکتے ہیں،آپ کو ووٹ چوری ہونے سے پہلے اسکو روکنا چاہیے۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ عدالت ووٹ طلب کر سکتی ہے لیکن یہ تعین نہیں ہو سکے گا کہ اسکا ووٹ کونسا ہے،سینیٹ ووٹ کی خریدوفروخت والی وڈیو سامنے آنے کے بعد ووٹ خریدنے کا طریقہ کار بھی بدل دیا گیا ہے،اب کمیشن ایجنٹ سامنے آ گئے ہیں جو ووٹر کو سامنے لانے کی بجائے رقم دوبئی یا کہیں بھی پہنچا دیتے ہیں اور اپنی کمیشن لے لیتے ہیں
،بار کوڈ لگانے سے ووٹر کی شناخت بھی خفیہ رہے گی،اس بارکوڈ کا الیکشن کمیشن کے علاوہ دنیا میں کسی کو کوئی علم نہیں ہوگا،بیلٹ پیپر اصلی ہے یا نقلی اس کا کیسے پتا چلایا جاتا ہے؟بیلٹ پیپر پر بھی پرنٹنگ کے دوران حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہوں گے،ووٹ اگر چوری ہو تو الیکشن کمیشن کارروائی کرسکتاہے،سیکریسی کا اصل مقصد شفافیت کو برقرار رکھنا ہے،لوگ اسلام آباد میں پیسوں سے بھرے بیگز کے ساتھ بیٹھے ہیں،سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے،اگر کسی نے قتل کے پیسے لیے اور
قتل نہیں کیا تو وہ خود قتل ہوجاتا ہے،ووٹ کے لیے جو پیسے لیتا ہے اسے وہ اپنا کام پورا کرنا ہوتا ہے،الیکشن خفیہ کا مطلب بیلٹ پیپر خفیہ ہونا ہے،سیکریسی پولنگ کے دن کی ہوتی ہے،عدالت جیسے جدید ٹکنالوجی استعمال کررہی ہے الیکشن کمیشن بھی ایسا کرسکتا ہے،الیکشن کمشن مخصوص بار کوڈ بیلٹ پیپز پر دے سکتا ہے،اس بار کوڈ سے صرف الیکشن کمشن ہی ووٹ کی شناخت کرسکے گا،ووٹ کو خریداری کے لئے منشیات اور دیگر طریقوں سے کمایا گیا پیسہ استعمال ہو رہا ہے،اب تو ایجنٹس خود ایک فریق سے پیسہ لیکر دوسرے فریق کو پہنچا دیتے ہیں،دبئی پیسے بھیجنے کیلئے کمیشن ایجنٹس نے زیادہ ریٹ طے کر رکھا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ ووٹ چوری نہیں ہونے دینا،
الیکشن کمیشن کہتا ہے چوری ہونے کے بعد کارروائی کرینگے، سیاسی جماعتوں کو تناسب سے کم سیٹیں ملیں تو قانون سازی کیسے ہوگی، منشیات اور دو نمبر کی کمائی ووٹوں کی خریداری میں استعمال ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نیند سے جاگنا ہوگا، تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کی بات کے پابند ہیں، بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ یا سریل نمبر لکھا جا سکتا ہے، کاوئنٹر فائل اور بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ ہو تو ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوگی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید کے دلائل مکمل ہوگئے۔
چیف الیکشن کمشنر نے ایک موقع پر بتایا کہ عدالت عظمیٰ کے تحفظات ختم کرنے کے لئے ای سی پی کے اختیارات میں اضافہ کی ضرورت ہے جس کے لئے ترمیم کرنی پڑے گی۔وکیل کے پی نے ایک موقع پر موقف اپنایا کہ سو فیصد ووٹ کی رازداری کا کوئی تصور نہیں۔صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل،الیکشن کمیشن کے وکیل اور ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ہیں۔بعد ازاں کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ہے ،کیس کا فیصلہ آج محفوظ ہونے کا امکان ہے ۔