پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

سینٹ انتخابات خفیہ بیلٹ ختم کرنے کیلئے یہ کام کرنا ہوگا۔۔۔  الیکشن کمیشن نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

datetime 16  جنوری‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی، آن لائن)الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات صدر، وزیراعظم کے انتخابات کی مانندآئین کے تحت ہیں،خفیہ بیلٹ ختم کرنے کیلئے آئینی ترمیم کرنا ہوگی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی ریفرنس پر 12 صفحات کا جواب سیکرٹری الیکشن کمیشن

شاہجیل شہریار سواتی ایڈووکیٹ کے ذریعے جمع کرایا۔الیکشن کمیشن نے جمع کرائے گئے جواب میں سپریم کورٹ سے سینیٹ انتخابات پر رائے طلب کی ہے، الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سینٹ انتخابات آئین کے تحت ہیں یاقانون کے تحت ہیں۔جواب میں کہا گیا ہے کہ خفیہ بیلٹ ختم کرنے کیلئے آئینی ترمیم کرنا ہوگی۔دریں اثنا سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ پیپرز کے زریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے ہیں کہ جہاں آئین خاموش ہوگا وہاں قانون کا اطلاق ہوگا،بتایا جائے سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ کار قانون میں کہاں لکھا ہے؟ بھارت نے سینیٹ انتخابات اوپن کرکے اسکا مکمل طریقہ کار وضع کیا۔کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس یحیی خان آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ اگر انٹرا پارٹی یا سیاسی پارٹیوں کے آپس کے معاملات ہوں تو عدالت ان میں نہیں

پڑتی،لیکن ازخودنوٹس کے دائر اختیار کے تحت عدالت سیاسی معاملات کا جائزہ لیتی رہی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتا ہے سپریم کورٹ تشریح کرتی ہے، سوال یہ بھی ہے ہم تشریح کیسے کریں،اگر عدالت تشریح کرتی ہے تو پھر کیا عدالتی تشریح کو

فوقیت حاصل ہوگی،اٹارنی جنرل عدالت کے سیاسی آئینی معاملات میں تشریح کے دو موقف پیش کررہے ہیں،آئین نے سینیٹ کی کمپوزیشن بتائی ہے جبکہ طریقہ کار الیکشن ایکٹ میں دیا گیا ہے،حکومت کا موقف ہے کہ اقلیتوں کا انتخاب خفیہ نہیں تو پھر سینیٹ کا انتخاب خفیہ کیوں؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک موقع پر سوال اٹھایا کہ حکومت سینیٹ الیکشن کے حوالے سے وضاحت کرے،سینیٹ کے انتخابات کے لیے تناسب کے تعین کا طریقہ کار قانون میں کیا ہے؟یہاں اوپن اور خفیہ بیلٹ کا معاملہ ہے،دیکھنا ہو گا کہ خفیہ اور اوپن بیلٹ میں کیا فرق ہے؟صدر کے

الیکشن میں کچھ گھنٹے نہیں پورا دن لگ جاتا ہے۔اٹارنی جنرل نے اس موقع پر دلائل دئیے کہ وفاق نے رائے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا،اگر آئین میں تشریح درکار ہو تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے،حکومت کا مقدمہ یہ ہے کہ آرٹیکل 226 کی تشریح کی جائے،آئین کی

تشریح کا فورم پارلیمنٹ نہیں بلکہ سپریم کورٹ ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں قرار دیا آئین کی تشریح کا اختیار ہمیں حاصل ہے،یہی میرے دلائل کا نچوڑ ہے،23 سال پہلے سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں قرار دیا سیاسی اور غیر سیاسی سوالات کے درمیان تفریق کیے بغیر

فیصلے کیے جائیں، ہر ملک میں آئینی معاملات کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ یا پھر آئینی عدالت ہوتی ہے،ہماری سپریم کورٹ ہی آئینی عدالت ہے،بنگلہ دیش بھارت سری لنکا اور امریکہ سمیت متعدد ممالک میں سپریم کورٹ آئینی و سیاسی معاملات میں آئین کی تشریح کرتی ہے،اگر آئینی

معاملات پر سیاسی معاملات غالب آجائیں تب عدالت ان معاملات سے گریز کرتی ہے،متعدد مرتبہ سپریم کورٹ سیاسی معاملات کی بھی تشریح کر چکی ہے،ہماری سپریم کورٹ اکثر سیاسی معاملات واپس پارلیمنٹ کو بھجتی رہی ہے،اگرچہ آئین نے سپریم کورٹ کو اختیار دیا ہے لیکن پھر

بھی عدالت نے معاملات واپس بھیجے،عدالت خود کہ چکی ہے کہ اسے تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہے،اگرچہ عدالت بہت سے معاملات پارلیمنٹ کو بھیج چکی ہے لیکن عدالت اپنی نظیروں کی پابند ہے،9 رکنی بنچ مختلف معاملات میں دائرہ اختیار سے متعلق فیصلہ دے چکا ہے،اب اس

پانچ رکنی بنچ میں صدارتی ریفرنس آیا ہے تو اس کا جواب اب آپ کو دینا ہے،میں حکومت میں یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ معاملہ آرٹیکل 226 کے لیے معاملہ پارلیمنٹ لے جائے،سپریم کورٹ کے جج صاحبان آئین کے تحت حلف لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود آئین کی تشریح بھی کرتے ہیں،سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا اختیار اسی آئین نے دیا ہے،عدلیہ کو سیاسی پہلوں کے حامل مقدمات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے،سپریم کورٹ حسب بل کیس میں آرٹیکل 186 کی تشریح کر چکی ہے۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…