لاہور( این این آئی) وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ سے کرپٹ سیاسی اشرافیہ اور ان کی منی لانڈرنگ بے نقاب ہوئی، جب بھی این آر او یا ڈیل ہوئی تو اس سے ہمیشہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے فائدہ اٹھایا،پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ میں کوئی فرق نہیں اور دونوں کا ملک کو لوٹنے کا طریقہ واردات ایک ہی ہے ،پیپلز پارٹی کی پہلے نظریاتی اساس تھی
جو اب ختم ہو چکی او ر اس کا نظریہ صرف لوٹ مار کا ہے،مریم اورنگزیب یا ان کے بڑوں کو چیلنج ہے کہ وہ براڈ شیٹ کے رشوت دینے کے الزام پر لندن پولیس کو درخواست دیں ،کٹ مانگنے کی جو بات کی گئی اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے ،آپ میں ہمت نہیں ہے لیکن میں یہ کرنے جارہا ہوں اور وہاں سے بھی آپ کو بھاگنا پڑے گا ،این آراودینے کے سلسلے ختم ہونے چاہئیں اور کسی بھی حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ کرپشن پر لوگوںکو معافی مل سکے بلکہ ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچناچاہیے ،اسفند یار ولی کیس کی ججمنٹ کے تناظر میں چیئرمین نیب کی تعیناتی کے معاملے میں تیسرا آپشن بھی ہے اور جب یہ وقت آئے گا تو دیکھا جائیگا ، این آر او کے حصول کیلئے مریم نواز کی بھرپور طریقے سے کوشاں اور ان کا مطالبہ بھی ہے لیکن اب کوئی این آر او دینا والا بچا نہیںہے ۔90شاہراہ قائد اعظم پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ جب بھی اپوزیشن سے بات ہوئی اس نے کبھی عوام کے لئے ریلیف نہیں مانگا ،فیٹف کے معاملے پر اپوزیشن نے کبھی عوام کیلئے ریلیف نہیں مانگا، میں بھی ان مذاکرات کا حصہ رہا ہوں ، اپوزیشن نے صرف نیب قوانین ختم کرنے کی بات کی، یہ لوگ صرف ذاتی تحفظ چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم عمران خان نے تین ٹوئٹس کی ہیں ج جس میں انہوںنے سیاسی اشرافیہ کی بات کی ہے ۔ وزیر اعظم کی تین ٹوئٹس براد شیٹ سے متعلقہ ہیں اور ان سے تصویر کا واضح ہے ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ حالیہ وقتوں میں پانامہ پیپرز اوربعد میں لیگل پروسیڈنگ نے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو ایکسپوز کیا ، پھر اس کے بعد براڈ شیٹ کی مقدمے کو لے کر حال ہی میںجو چیزیں سامنے آئیں اس میںبھی سیاسی اشرافیہ ہی ایکسپوز ہوئی کیونکہ اس کا مدعا بھی منی لانڈرنگ اور کرپشن تھا ،وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھاکہ سیاسی اشرافیہ نے ہمیشہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کو
اپنے دفاع کے لئے چاہے وہ این آر او ہو یا ڈیل کی صورت میں استعمال کیا ،اگر یہ پکڑے جائیں تو یہ بیانیہ گھڑلیا جاتا ہے کہ ان کے خلاف سیاسی انتقام کارروائی ہو رہی ہے۔ یہ وہ سیاسی اشرافیہ ہے جس نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کی اور سیاسی اثر و رسوخ سے اپنی سیاست کو تقویت پیسے پہنچاتے ہیں، اسے یہ اپنے دفاع اور اپنی جان پہچان کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سب سے پہلے ہم پورے معاملے کی شفافیت چاہتے ہیںکس کس نے کب این آر او دیا ،
کس کو ریلیف ملا ، کس نے کیس بند کرانے اور تحقیقات روکنے کی کوششیں کیں۔ انہوںنے کہاکہ براڈ شیٹ کے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ کن لوگوں کی تحقیقات کر رہی تھی ، 200لوگوں کی جو فہرست دی گئی تھی وہ عمران خان یا شہزاد اکبر نے تو نہیں دی تھی ،یہ بیس اکیس سال پہلے معاہدے کے تحت بنائی گئی تھی ۔ تحریک انصاف کا اس وقت سے آج تک ایک ہی بیانیہ ہے کہ کرپشن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔ کرپشن کے ذریعے سیاسی اشرافیہ بن چکی ہے جو اپنے مفاد کیلئے
اثر و رسوخ کا استعمال کرتی ہے ۔ جب ہم سیاسی اشرافیہ کی بات کرتے ہیں تو یہ وہی ہے جو 200کی فہرست میںہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاںہے کہ 1999ء سے جب بھی کوئی ڈیل ہوئی تحقیقات سے روکا گیا تو این آر او کا مفادلینے والا کون تھا اور وہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ ہی تھی ، پہلی ڈیل انہوںنے مشرف کے ساتھ کی جس کے نتیجے میں یہ سرور پیلس چلے گئے ، اسی کے تحت حدیبیہ پیپر ملز سمیت دیگر کیسز میں کمپرو مائز ہوگیا ، حدیبیہ پیپر ملز میںقاضی فیملی کے نام پر
منی لانڈرنگ کی اور بالکل اسی طرح شہباز شریف فیملی نے ٹی ٹی کے ذریعے اسے دہراایااور اس کے لئے بھی بالکل ویسا ہی طریقہ کار اختیار کیا ۔ پھر انہوںنے یہ بھی کہا کہ ہماری کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور پھر سعد حریری نے سب کچھ بتایا۔ دوسرا این آر او 2007ء میں ہوا اس کے این آر او سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے بینظیر واپس آئیں اور اس کے بعد نوزاز شریف واپس آ گئے ، اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تو نہیں تھے ہم تو اسٹیک ہولڈرز نہیں تھے ۔ہی سیاسی اشرافیہ تھے اورسیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا گیا ۔
جس نے این آر او کیا بعد میں وہ پچھتاتا بھی رہا کیونکہ یہ باز نہیں آئے ۔ پہلے کی کارروائی الگ تھیں ، ایک ایک بار حکومت کرنے کی باریاں الگ ہیں۔ پنجاب میں خادم اعلیٰ نے ساڑھے 7ارب کی خاندان کی خدمت کی ۔ انہوںنے کہاکہ اس سیاسی سٹیٹس کو کو توڑنے کو کے لئے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور ہم مینڈیت لے کر آئے کہ آپ کو پکڑے جانا ہے اور ایکسوز کرنا ہے اور ہم نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال نہیں کرنے دیا ۔ امشرف کی حکومت ہم میں واضح فرق ہے ۔ سیاسی اشرافیہ ایک تھالی کے چٹے وٹے ہیں ۔(ن) لیگ اور پیپلزپارٹی میں کوئی فرق نہیں۔پیپلزپارٹی کی پہلے نظریاتی اساس تھی جو اب ہو چک
ی ہے ، اب ان کا ایک ہی نظریہ لوٹ مار اور ایک ہی طریقہ واردات ہے ،تحریک انصاف نے آکر سٹیٹس کو توڑا ۔ انہوںنے بند دروازے کے پیچھے این آرا و کیے اور جن کے ساتھ کیا ان کے لئے ریڈ کارپٹ بھی بچھایا ۔ ہمارے ساتھ بیٹھے کہ سیاسی نظام چلا سکیں ،فیٹف کے قانون کو پاس کرانے کیلئے بات چیت کی گئی لیکن جواب میں عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی بات نہیں ، یہ صبح و شام مہنگائی کا رونا روتے ہیں او ر ہمیںبھی معلوم ہے کہ مہنگائی ہے اور وزیراعظم اسے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اپوزیشن نے کسی بھی ملاقاتت میںعوام کے لئے مسائل کی بات نہیںکی ۔میں خود ان مذاکرات کا حصہ رہا ہوں ،
ان کا واحد مطالبہ نیب کے قانون میں38میں سے 34شقوں کو تبدیل یا ختم کرنا ہے ۔ جب ہم نے بات کیت و سب سے پہلا رد عمل کیا آیا تھا ، شاہد خاقان عباسی نے کہا تھاکہ یہ بند کمروںکی باتیں تھی جو پبلک کردیں ۔ آپ اور ہم عوام کا اعتماد لے کر آئے ہیں ، عوام ہمیں ایوان اقتدار میں اپنا نمائندہ بناکر بھیجتے ہیں ہم عوام سے بد دیاتنداری نہیں کرسکتے ۔ پارلیمان میںقانون سازی ذاتی مفادات کے لئے نہیںہوسکتی وہ عوام کے فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہے ۔ اگر عمران خان آج ان کی شقوں کو ختم کرنے کا مطالبہ مان لیں
تو سب سے گن یہ گائیں گے ۔میں اس شخص کا نام نہیں لینا چاہتا جس نے کہا تھاکہ بلیک بلیک لسٹ سنجیدہ نیشنل سکیورٹی کا ایشو ہے ، لیکن اعلیٰ لیڈر نے جواب دیا تھاکہ یہ نیشنل سکیورٹی کی بات نہیں ہے یہ پرسنل سکیورٹی کی بات ہے ،جو دولت کمائی ہے وہ پکڑی جارہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اداروںکو آزاد کرنے سے کارکردگی خود بھولتی ہے،دس سالوں میں نیب 100ارب کے لگ بھگ ریکور
کئے لیکن دو سال میں 390ارب کی ریکوری کی ہے ، جب این آر او نہیں ملتا تو پھر عوام کو فائدہ ملتا ہے اسی وجہ سے آج اپوزیشن کو تکلیف ہو رہی ہے۔ سیاسی اشرافیہ تحصیل ،ٹائون کی سطح سے شروع ہوتا ہے ، سی این جی ،پیٹرول پمپ کے لائسنس ،پلازے ، سرکاری زمین پر قبضہ اور وسائل کا بے دریغ استعمال سیاسی اثر و رسوخ ہی کرتا ہے ۔ آج جب جوابدہی ہو رہی ہے تو آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔ آپ نے پانامہ لے کر براڈ شیٹ کی جمنٹ تک غلط مٹھائیاں کھا کھا کر خود کو شوگر کرا لی ہے ، فیصلہ پڑھ لیا
تو کریں ،جب براڈ شیٹ کو پیسوں کی ادائیگی ہوگئی تو اس نے کہا کہ اب ہم اٹیچ منت نہیں چاہتے ،نواز شریف اورمریم نواز خود اس میںکود پڑے کہ ہمیںبریت مل گئی اور ایک دفعہ پھر خود کو جوتیاں کھانے کے لئے عوام کے سامنے پیش کردیا ، براڈ شیٹ نے خود کہا کہ بھئی کہاںسے آپ کی بریت ہوگئی بلکہ ہم نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا کیونکہ پیسے واپس مل چکے ہیں۔براڈ شیٹ سے معاہدے کے معاملے پر
حکومت نے کمیٹی بنائی ہے جو شروع سے آخر تک سب معاملات کو دیکھے گی اور جس کی بھی کوتاہی ثابت ہوگی اس کا تعین کیا جائے گا۔2009ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی ،مسلم لیگ (ن) والے بتائیں 20016ء میںکس کی حکومت تھی اور کون اٹارنی جنرل تھا ،کس لاء فرم کو ہائر کیا گیا تھا،ہم نے جس کی بھی تحقیقات کیں وہ قوم کے سامنے رکھ دیا ۔ آپ نے کبھی انکوائری کی اور نہ قوم کے سامنے کبھی کچھ رکھا ۔یہ بات سامنے آئی ہے کہ انجم ڈار نے براڈ شیٹ کو رشوت دینے کی کوشش کی ،
کیا انجم ڈار مسلم لیگ (ن) جرمنی کا صدرنہیںہے ، کیا اس معاملے کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے ۔ میں مریم اورنگزیب اور انکے بڑوںچیلنج کرتا ہوں کہ برطانیہ میں رشوت دیناایک جرم ہے میں72گھنٹوںکا ٹائم دیتا ہوں آپ لندن میں میٹرول پولٹین پولیس کو درخواست دیں، اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں ، میں قانونی حوالوں سے آپکو معاونت کیلئے موجود ہوں۔ کٹ مانگنے کی جو بات کی گئی اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے ،آپ میں ہمت نہیں ہے لیکن میں یہ کرنے جارہا ہوں اور وہاں سے بھی آپ کو بھاگنا پڑے گا ۔
انہوںنے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے آج تک جو بھی بیانیہ اپنایا اس میں فائدہ کی بجائے انہیں لینے کے دینے پڑ گئے، جہاں تک ہمارا موقف ہے کہ 2000ء سے 2020ء کے معاملے کو دیکھنا چاہیے ، اسے کیسے ہینڈل کیا گیا ، جو رقم ادا کرنا پڑی اس میں کس کی نا اہلی اور کوتاہی ہے ، آپ کی تو صرف یہ اپروج ہے کہ موساوی پیسے لے لے اور سارے معاملے کو چھوڑدے ۔ براڈ شیٹ کی تحقیقات کو لے لیں
اس میں سے اس کے ہی نام نکلیں گے بلکہ اب تو پوری پی ڈی ایم کے نام آرہے ہیں۔انہوںنے وزیر اعلیٰ پنجاب کے اختیارات استعمال کرنے کے حوالے سے سوال کے جوا ب میںکہا کہ یہ بھونڈا الزام ہے ، عثمان بزدار منتخب وزیراعلیٰ ہے ،مشیروں کے کردار کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ وزیرا عظم نے صرف ہم سے مشاورت کرنی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ اپوزیشن کے پاس کوئی بیانیہ ہے نہیں اس لئے سیاسی انتقام کا رونا رویا جاتا ہے کیونکہ اب ان کے پاس کوئی بیانیہ اور نہ ان کے پاس کوئی منشور ہے ۔انہوںنے کہا کہ میری براڈ شیٹ کے سی ای او سے دو ملاقاتیںہوئیں،
ادائیگی کے حوالے سے 2019ء میںایوارڈ ہو چکا تھا، وزیرقانون ان سے ملے اور ہماری صرف یہی کوشش تھی کہ جورقم دینی ہے اس میںکمی ہوجائے تاکہ کم سے کم نقصان ہومگر براڈ شیٹ اس کیلئے راضی نہیںہوئی۔انہوںنے کہاکہ جنہوںنے این آر او دیاتھا وہ دبئی یا کہیں اور بیٹھے ہیں ، یہ بھی باہر ہیں دیکھیں کیا کرنا ہے ، ان کے دودور گزرے ہیں انہیں کیاکیا ؟۔انہوںنے کہا کہ براڈ شیٹ کے معاملے کو ہم نے نہیں بلکہ خود نواز شریف اور مریم نواز شریف نے اچھالا ، یہ اور پی ڈی ایم والے جوبیانیہ بنانے کی
کوشش کرتے ہیں الٹا ان کے گلے پڑ جاتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ لیڈر شپ اور اہلیت کا پتہ چلتا ہے کہ انٹر نیشنل کرکٹ کونسل نے پول کرایا جس میں عمران خان دو دہائیوں بعد بھی نمبر ون کپتان کے طور پر سامنے آئے جبکہ کاوے موسوی کہتا ہے کہ شریف خاندان میرے خلاف مقدمہ کرے گا ، مقدمہ وہ کرتا ہے جس کی کوئی عزت ہوتی ہے، آپ سپریم کورٹ سے تاحال نا اہل ہیں اور آپ کو بد دیانت کہا گیا ہے، احتساب عدالت سے آپ سزا یافتہ ہیں، میرے خلاف کیس کر کے تو دکھائیں۔انہوںنے چیئرمین نیب کی
مدت ملازمت میں توسیع یا وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے مل بیٹھنے کے سوال کے جواب میں کہاکہ اسفند یار ولی ججمنٹ کے تحت تیسری صورت بھی ہے ، وہ وقت جب آئے گا تو دیکھا جائے گا ابھی آٹھ سے نو ماہ پڑے ہوئے ہیں۔ انہوںنے مریم نواز کی ضمانت منسوخی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا جواب نیب ہی بہتر دے سکتی ہے کہ انہیں کسی تفتیش کے لئے وہ درکار ہیں جس کے لئے وہ ضمانت منسوخی کے لئے عدالت جائے ۔ مریم نواز کی شدید خواہش او رمطالبہ ہے کہ انہیں این آر او مل جائے
اور وہ بہاولپور سے واپس آتے ہوئے کسی سروس اسٹیشن پررک کر بھی این آراوکی باتیںکر رہی تھیں ، لیکن اب این آر او دینے والا بچا کوئی نہیں اور نہ ان کے ایسے کرتوت ہیں۔ انہوںنے کہاکہ این آراودینے کے سلسلے ختم ہونے چاہئیں،کسی بھی حکومت کے پاس یہ اختیار نہیںہونا چاہیے کہ لوگوںکو معافی مل سکے، مقدماتک کو منقطی انجام تک پہنچناچاہیے ۔ انہوںنے شاہد خاقان عباسی کے لندن جانے کے حوالے سے سوال کے جوا ب میں کہاکہ انہیں امریکہ جانے کیلئے ایک دفعہ اجازت کی درخواست دی جس پرانہیںانسانی ہمدردی کے تحت غور کیا گیالیکن وہ لندن چلے گئے ، جب وہ دوبارہ کبھی درخواست دیں گے تو ا ن کے اس عمل کو سامنے رکھاجائے گا۔