اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) مولانا فضل الرحمان ہوں، بلاول بھٹو زرداری یا پھر مریم نواز، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے قائدین حکومت کو جنوری میں گھر بھیجنے کی ڈیڈ لائن دے چکے ہیں۔قومی اخبار دنیا نیوز میں شائع خاور گھمن نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ شروع ہو چکی ہے ، پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتوں میں
سے جو بھی پیچھے ہٹے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔ اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں نے بھی آستینیں چڑھا رکھی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن کی ہار کو ان کے بیانیے کی شکست قرار دے رہی ہے ، اس کے باجود پی ڈی ایم کی تحریک پورے جوش و خروش کیساتھ جاری ہے۔ ابھی تک اس تحریک کا واحد مقصد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے ، ایسے میں شہر اقتدار کے ایوانوں میں صرف ایک ہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے مطالبے کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کیسے ممکن ہو گا؟پہلی صورت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن جماعتوں کے دبائو میں آکر استعفیٰ دے دیں اور گھر چلے جائیں جس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے، دوسری صورت یہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے ، لیکن موجودہ حالات میں وہ بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی؟ تیسری صورت یہ ہے کہ عدالتوں سے آرٹیکل 62 اور 63 کی بنیاد پر وزیر اعظم عمران خان کو نااہل کروا دیا جائے مگر عمران خان کے حوالے سے ایسا تو کوئی مقدمہ عدالتوں میں نہیں چل رہا اور نہ ہی اس نوعیت کے مقدمے کے امکانات موجود ہیں۔ اس صورتحال میں قانونی اور آئینی طریقے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجنے کی کون سی آئینی صورت باقی رہ جاتی ہے ؟باخبر ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم میں اس وقت دبائو برقرار رکھنے کے ساتھ حکومت کو آئینی طریقے سے گھر بھیجنے پر بھی غور وخوض ہو رہا ہے۔ لیکن بات بنتی نظر نہیں آ رہی۔اگر جلسوں اور
دھرنوں سے حکومت کو گرا بھی لیا جائے تو اس کے بعد کیا ہو گا، اگلے انتخابات کون کرائے گا؟ اور بغیر الیکشن ریفارمز کے کونسی پارٹی الیکشن کے نتائج پر رضا مند ہو گی؟حکومت گرنے کے بعد کیاعمران خان چپ کر کے بیٹھ جائیں گے ؟ ان سوالات کے جوابات سردست اپوزیشن کے پاس بھی نہیں اور کنفیوژن برقرار ہے۔پی ڈی ایم کے انتہائی سینئیر رہنما کے مطابق مولانا فضل الرحمان ، بلاول بھٹو اور
مریم نواز کی طرف سے سارا دبائو مقتدرہ پر ڈالنے کی کوشش کی ہے، اپوزیشن کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی مقتدرہ کو اس نہج پر لایا جائے کہ وہ سیاسی معاملات میں آگے بڑھ کرکردار ادا کرے اور حکومت کے گھر جانے کی کوئی صورت نکل آئے۔ فرض کریں اگر ایسا ہوبھی جاتا ہے تو میڈیا پھر سوال پوچھے گا کہ آپ لوگ تو مقتدرہ کے سیاسی کردار کے خلاف تھے ؟ پھر اب یہ مداخلت کیسے حلال ہو گئی ؟
دوسری جانب عمران خان کے تعلقات اداروں کے ساتھ بالکل نارمل انداز میں چل رہے ہیں تو پی ڈی ایم کامیاب کیسے ہو گی؟ ایسی صورت میں پھر وہ کون سی شرائط ہو سکتی ہیں جن کی بنیاد پر حکومت ،اپوزیشن کو فیس سیونگ دے سکتی ہے ؟ یوں فی الوقت صورت حال مکمل طور پر غیر واضح ہے۔ اسلام آباد میں موجود سیاسی تجزیہ کار متفق ہیں کہ ملک میں موجودہ سیاسی تنائو کسی بڑی
تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ایسے میں حکومت نے انتخابی اصلاحات پر کام شروع کرنے کا بہتر فیصلہ کیاہے ، عمران خان حکومت نے اپوزیشن کو بھی مشاورت کی دعوت دے دی ہے۔ اپوزیشن حکومت کی اس دعوت کو قبول کرتی ہے یا نہیں؟ کچھ مبصرین کے مطابق امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے لیکن پاکستانی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی پھر بھی
ممکن نہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنی کچھ شرائط کیساتھ حکومت کیساتھ مذاکرات کی میز پر آتی ہے یا پھر عمران خان حکومت کو گھر بھیجنے کا کوئی فارمولا سامنے لاتی ہے، حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے فی ا لحال ملک میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے۔پشاور میں ہونے والے جلسے میں شرکاء کی تعداد خاصی کم تھی اور کورونا کے پھیلائو کی وجہ سے آئندہ جلسوں میں
یہ مزید کم ہوگی تاہم اپوزیشن کاکہناہے کہ پشاور جلسے میں انتظامیہ نے ہر طرف رکاوٹیں کھڑی کرکے عوام کو جلسے میں آنے سے روکا۔ ماضی میں جس طرح عمران خان کے 126 دن کے دھرنے کا آخرمیں حل قانونی طریقے سے ہی نکلا۔ پی ڈی ایم کو بھی ایک نہ ایک دن کوئی قانونی راستہ ہی چننا پڑے گا، چاہے وہ پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر۔جس طریقے سے کورونا کے کیسز بڑھ رہے ہیں، خدا نخواستہ اگر حالات نہ سنبھلے تو آنے والے ہفتوں میں پاکستان کی سب سے بڑی خبر کورونا وائرس کے وار ہوں گے نہ کہ بلاول اور مریم کی حکومت کو للکار۔