ہفتہ‬‮ ، 10 مئی‬‮‬‮ 2025 

1972میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے پولیس کی ہڑتال ختم کرانے کیلئے اس وقت کے آرمی چیف اور ائیر چیف سے مدد مانگی لیکن دونوں نے انکار کردیااس کے بعد کیا ہوا؟حامد میرکے اہم انکشافات،عمران خان کو بڑا مشورہ دیدیا

datetime 22  اکتوبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر اینکرپرسن اور کالم نگار حامد میر اپنے آج کے کالم ”ہوش کے ناخن لیں” میں لکھتے ہیں کہ 1972میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو ناصرف صدر پاکستان بلکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ اس وقت پنجاب اور سرحد(خیبر پختونخوا)

میں پولیس نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ مطالبہ پورا نہ ہوا تو دونوں صوبوں میں پولیس نے کام چھوڑ دیا، ہڑتال ہو گئی۔ بھٹو نے اس وقت کے آرمی چیف گل حسن سے مدد مانگی لیکن گل حسن نے معذرت کر لی۔ آخر کار بھٹو نے مجبور ہو کر ایئر فورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان سے مدد مانگی۔ منیر احمد منیر کی کتاب المیہ مشرقی پاکستان، پانچ کردار میں گل حسن اور رحیم خان کے انٹرویوز موجود ہیں۔بھٹو کو شک تھا کہ یہ ہڑتال گل حسن اور ولی خان کی سازش ہے لیکن ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔ یہ معاملہ اتنا بگڑا کہ گل حسن نے استعفیٰ دے دیا۔ بھٹو کی خواہش تھی کہ فوج مدد کو نہیں آئی تو ایئر فورس مدد کو آئے۔ ایئر مارشل رحیم نے بھٹو سے کہا کہ سر ایئر فورس اپنے لوگوں پر بمباری نہیں کر سکتی۔ بھٹو نے کہا، آپ پنجاب کے شہروں پر نیچی پروازیں کریں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ مسلح افواج ہمارے ساتھ ہیں۔ ایئر مارشل رحیم خان نے بھی انکار کر دیا اور استعفیٰ دے دیا۔بھٹو نے ان دونوں کو آسٹریا اور اسپین میں سفیر

بنا کر بھیج دیا۔ بعد ازاں پولیس کی ہڑتال ناکام بنانے کے لئے گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر نے خالی تھانوں کا چارج پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو دے دیا اور الٹی میٹم دیا کہ 24گھنٹے میں ڈیوٹی پر واپس نہ آنے والے پولیس اہلکاروں کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ 24گھنٹے

میں ہڑتال ختم کر دی گئی اور پولیس کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ 3مارچ 1972کو صدر بھٹو نے قوم سے خطاب میں اِس ہڑتال کو بغاوت قرار دے دیا اور اِس بغاوت میں اپوزیشن کی ملی بھگت کا دعوی کیا۔بعد ازاں انہوں نے بلوچستان میں اپوزیشن کی حکومت کو

وفاق کے خلاف سازش کے الزام میں برطرف بھی کر دیا لیکن آخر کار اپنی غلطیوں کے باعث ایک ایسے مقدمہ قتل میں ملوث کر دیے گئے جو ان کے دور حکومت میں پنجاب پولیس نے ان پر درج کیا تھا۔آج کے حکمرانوں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1972میں پولیس

کی ہڑتال کے بعد پنجاب میں بیورو کریسی نے ایک سرکاری افسر کی گرفتاری پر اور بعد ازاں مزدوروں نے کراچی میں بہت بڑی ہڑتال کی تھی۔ بہتر ہو گا کہ 2020 میں سندھ پولیس کے ردِعمل کے پیچھے سازش تلاش نہ کی جائے بلکہ اپنی غلطیوں کو تلاش کر کے انہیں سدھارا جائے۔ منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکیوں سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید بگڑیں گے، اِس لئے ہوش کے ناخن لئے جائیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



محترم چور صاحب عیش کرو


آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…