دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟کیا پی ڈی ایم کے جلسوں سے تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ ہے؟سہیل وڑائچ کے حیران کن انکشافات

21  اکتوبر‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم ’’غصے میں عقل جاتی رہتی ہے ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ چیتے کے لیے بہتر تو یہی ہوتا کہ وہ غصے کو تھوکتا، ہوش و خردسے کام لیتا، ڈیلیوری پر توجہ دیتا، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کو قابو میں لانے کے لیے پالیسیاں لاتا، سرکاری ملازموں کی حالت زار کا خیال کرتا یا کچھ ایسا کرتا کہ سب قائل ہوتے مگر چیتا غصہ ہو رہا ہے،

پیچ و تاب کھا رہا ہے، شیر یہی تو چاہتا ہے کہ فضا میں سیاسی کشیدگی ہو، حکومت کی توجہ گورننس سے ہٹ جائے۔روزنامہ جنگ میں شائع معروف صحافی سہیل وڑائچ نے لکھا ہے کہ جنگل کی عقل مند لومڑیاں اور پریشان گلہریاں ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں جلسوں کے بعد کیا؟ دسمبر، جنوری میں ایسا کیا ہونے والا ہے جس کا بوڑھا شیر اور مریم شیرنی اظہار کر رہے ہیں؟ بظاہر کوئی حکومت جلسے جلوسوں سے نہیں جاتی اگر جونیجو اور جنرل ضیاء الحق 10اپریل 1986کے بےنظیر بھونچال کو برداشت کرکے قائم رہ گئے تھے تو پھر پی ڈی ایم کے جلسوں سے بھی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔البتہ اپوزیشن جماعتوں کی ریلی خطرناک اقدام ہوگا۔ اگر واقعی اپوزیشن ایک بڑی ریلی اسلام آباد کی طرف لے کر آنے میں کامیاب ہوگئی تو اِس سے سارا نظامِ حکومت معطل ہو جائے گا اور اگر اِس ہجوم میں جارحانہ انداز ہوا تو شاید اِس سے جانی و مالی نقصانات بھی ہوں۔ ہمارے ہاں تو چند ہزار کی ریلی حکومت اور ریاست کی چولیں ہلا دیتی ہے اگر واقعی کوئی بڑی ریلی دارالحکومت آگئی تو اُس کا توڑ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جنگل کے جانور اِس طرح کا ڈیڈ لاک نہیں چاہتے، چرند پرند کو معلوم ہے کہ ایسی صورت میں ریاست کی معیشت بالکل بیٹھ جاتی ہے۔ایسا پہلے بھی ہوا ہے اور اگر اِس بار ہوا تو ہمارا بولو رام ہو جائے گا۔ چیتا ایماندار ہے مگر غصے والا ہے، ناتجربہ کار ہے۔ ریاست کو دیکھنا یہ ہوگا کہ سیاسی تصادم اور وہ بھی پنجاب کی سیاسی اور ریاستی قوتوں کے درمیان، نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔

شیر اور چیتے کی لڑائی میں بظاہر چیتے کا لشکر بھاری ہے، فی الحال اسے ہاتھیوں، گھوڑوں اور پیادوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری طرف شیر کا انحصار پیادوں یا پھر ایسی شہ پر ہے جس کا مرکز ابھی ظاہر نہیں ہوا۔ جو لوگ بوڑھے شیر کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آخری لڑائی میں آخری وار تب ہی کرتا ہے جب اُس نے پورا حساب کتاب لگا لیا ہوتا ہے۔ وہ چیتے کی طرح غصے میں

ردِعمل نہیں دیتا بلکہ اپنے غصے کا اظہار صرف اُس وقت کرتا ہے جب اُس کی ٹائمنگ ٹھیک ہو۔شطرنج کے سارے مبصرین دم سادھے بیٹھے ہیں کہ بوڑھے شیر کے پاس وہ خفیہ کارڈ کونسا ہے جس کی بنیاد پر وہ برسرپیکار ہے۔ وہ اِس وقت نہیں لڑا جب اقتدار سے نکالا گیا، تب بھی نہیں لڑا جب نااہل ہوا، اُس وقت بھی نہیں لڑا جب قید ہوا۔ اب آخر اُس کو کس کی شہ ملی ہے یا کونسا کارڈ ہاتھ آیا ہے کہ وہ پھر سے شیر ہو گیا ہے؟

موضوعات:



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…