کراچی(این این آئی) پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا ہے کہ کٹھ پتلی حکومت کے ہاتھ پر بیعت کر نے کیلئے تیار نہیں،کچھ حصوں پر ہمارے کچھ بڑوں کو بڑا اعتراض تھا جس پر کٹھ پتلی صاحب کو بوٹ پولش کر نے کا موقع مل گیا،عزت نفس کو قربان کرکے ہم نے زندگی گزارنا نہیں سیکھا،انشا اللہ پاکستان کے عوام کو
حقیقی جمہوری آزادی سے ہمکنار کرکے رہیں گے، عمران خان کشمیر کے سوداگر ہیں آج مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں، اگر سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو آئین کیخلاف ہو گا، سندھی اور بلوچی اس کو کبھی قبول نہیں کریں گے، اگر سندھ کے عوام نہیں چاہتے تو کسی کا باپ سندھ کو تقسیم کرنے کی جرات نہیں کرسکتا،18 ویں ترمیم کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا، ناکام خارجہ پالیسی نے پاکستان کو تنہائی میں دھکیل دیا ہے، پاکستان اس وقت مضبوط ہو گا جب تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ میں رہ کر کام کریں، فوج ہماری آنکھوں کی پلکوں جیسی ہے، حدود میں رہیں گے تو ہم سلیوٹ کریں گے،نااہل اور جاہل حکمران کے رحم و کرم پر پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے ہیں، ہمیں ملک میں ایک جائز اور شرعی تبدیلی چاہئے،ہم جمہوریت کیلئے میدان میں نکلے ہیں، ہم اپنا حق لے کر رہیں گے، عوام کا حق لے کر رہیں گے۔ اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم ایسے لمحات میں اکٹھے ہیں کہ ربیع الاول کا چاند بھی نظر آ گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ18 اکتوبر ہمیں ان شہدا کی یاد دلا رہا ہے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کیلئے کارکنان جمع تھے، اس وقت خودکش اور قاتلانہ حملہ کیا گیا، سیکڑوں کی تعداد میں لوگ شہید ہوئے اور ہزاروں معذور ہو گئے، میں تمام شہید ہونے والے جمہوری کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہاکہ پورے سندھ میں
ہمارا استقبال کیا گیا، پنجاب میں بھی ہمارا استقبال کیا گیا، تمام قائدین ہمارے ساتھ اسلام آباد میں اسٹیج پر رہے، میں آپ تمام کا مشکور ہوں کہ آپ میرے ساتھ کھڑے ہو۔ انہوں نے کہاکہ آج پی ڈی ایم نے جمہوری فضاں کو بحال کرنا ہے ہم دو سال سے میدان کارزار میں ہیں، ہمیں مجبور کیا رہا ہے کہ ہم بدترین دھاندلی میں قائم کی گئی حکومت کو تسلیم کر لیں، لیکن تمام مراحل گززر گئے ہمیں ڈرایا
دھمکایا بھی گیا، ہمیں لالچ اورترغیب بھی دی، ہم نہ دھمکیوں سے مرغوب ہوئے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں اور آج بھی علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی حکومت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیا رنہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میرے محترم دوستوں گوجرانوالہ میں بڑا تاریخ جلسہ ہوا، میاں نواز شریف نے بھی خطاب کیا، ان کا خطاب الیکٹرانک میڈیا پرتو نہیں دکھایا گیا لیکن ان
کے کچھ حصوں پر ہمارے کچھ بڑوں کو بڑا اعتراض تھا، اور کٹھ پتلی صاحب کو موقع پر ملا کہ آج بوٹ پالش کر لیں اور وہ ہمیشہ جذبات میں کوئی نہ کوئی بونگی مارتا ہے، اگرچہ وہ بتانا یہ چاہتا ہے کہ خواجہ آصف نے اسمبلی کی نشست کیسے حاصل کی تو اور کہتا ہے کہ خواجہ آصف کو باجوہ صاحب نے جتوایا اور اسے یہ خیال نہیں آیا کہ میں خود دھاندلی کا اعتراف کر رہا ہوں، باجوہ
صاحب آپ ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ لیکن بے وقوف دوستوں سے بچیں، اگر آپ کو لوگوں سے شکایت ہے تو ہم سے شکوہ نہ کریں آپ اپنے بے وقوف دوستوں کو دیکھیں، دنیا میں ریاستوں کی بقا معاشی بنیادوں پر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ نواز شریف نے 2018 میں معاشی ترقی کی شرح ساڑھے پانچ فیصد اور اگلے سال کے لیے ساڑھے چھ فیصد لگائی تھی، لیکن ان نااہلوں نے
ان دو سالوں میں اب 0.3 پر معیشت آ گئی ہے، جب معیشت کی کشتی ڈوبتی ہے تو ریاست ڈوبتی ہے سووویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے، لیکن معاشی کمزوری کے باعث وہ اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکا، جو لوگ آج یہاں بیٹھے ہیں وہ پاکستان کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، آئین نے جس جمہوریت کا تعین کیا ہے اس کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور جن قوتوں نے کہا کہ اس حکومت کو
تسلیم کر لیں ان کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ ایک دن ہم آپ سے منوائیں گے کہ آپ سے غلطی ہوئی تھی، عزت نفس کو قربان کرکے ہم نے زندگی گزارنا نہیں سیکھا، میری نسبت برصغیر کے ان اسلاف اور اکابر کے ساتھ ہے جنہوں نے ڈیڑھ سو سال تک جدوجہد کی ہے ان کو جیلوں کی صعوبتوں میں ڈالا گیا، لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے، اور انشا اللہ پاکستان کے عوام کو حقیقی جمہوری آزادی
سے ہمکنار کرکے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا خواب 26 لاکھ نوجوانوں کی بے روزگاری پر ختم ہوا، 50 لاکھ مکانات دینے کا دعوا کرنے والوں نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا، ان میں گھر دینے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے، غریب عوام کی قوت خرید ختم ہو گئی ہے، بچوں کو سڑک پر لاکر کھڑا کر دیا جاتا ہے، لوگ اپنے بچوں کو
فروخت کرنے پر مجبو رہیں، دنیا میں انقلاب کبھی امیر نہیں لایا ہے، غریب عوام ہی لائے ہیں، پاکستان میں بھی انقلاب آ کر ہی رہے گا۔انہوں نے آج ملک کا کیا حشر کر دیا ہے، کشمیر کو بیچ ڈالا، آج عمران خان نے کشمیر کو تقسیم کرنے کی بات نہیں کی تھی، کیا مودی کے آنے پر کشمیر حل ہونے کی بات نہیں کی تھی، مودی کے آنے پر کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس کر دیا اور کشمیر کا
سودا کرکے مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہو، تم کشمیر فروش ہو، کشمیر بیچ کر اب گلگت بلتستان کا مسئلہ اٹھا رہے ہو، ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر اور بلتستان پاکستان کا حصہ ہیں لیکن ہم یہ چاہتتے ہیں سلامتی کونسل میں کشمیر کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اس کے مطابق فیصلہ ہو، اگر ہم نے اس نقشے سے گلگت بلتستان سے الگ کر دیا تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، ہم نے بہہتر سال کشمیریوں
کی لاشوں پر سیاست کی، آج ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں، اور کشمیریوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہے، ہمارے اس فیصلے کا کشمیر کا کیا اثر پڑے گا، جب تم آزاد کشمیر کے وزیرا عظم پر غداریکا مقدمہ درج کرو گے تو عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے سے کیا پیغام جائے گا، ہم نے اٹھارویں ترمیم مین صوبوں کو صوبائی خودمختاری دی، یہ اچھی پیش رفت ہے، آزاد کشمیر
کے آئین میں 13 ویں ترمیم لائی گئی، جس سے وہاں کی حکومت اور اختیارات میں اضافہ کیا گیا، مگر آج پاکستانی حکمران سر جوڑ کر بیٹھے ہیں کہ کشمیری حکومت کے اختیارات کم کرنے ہیں، آپ اپنے صوبوں کو دیئے گئے اختیارات کم کرنا چاہتے ہیں کیا اس سے بغاوت پیدا نہیں ہو گی، اگر سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ آئین کیخلاف ہو گا، سندھی
اور بلوچی اس کو کبھی قبول نہیں کریں گے، 18 ویں ترمیم کا ہر صورت تحفظ کیا جائے گا، کوئی ایسی ترمیم قبول نہیں کی جائے گی، جس سے چھوٹے صوبوں کے حقوق صلب ہوں اگر سندھ کے عوام نہیں چاہتے تو کوئی طاقت سندھ کو تقسیم نہیں کر سکتے، آج تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کا برا حال ہے، ہر طرف سے احتجاج کی آوازیں آ رہی ہیں، ناکام خارجہ پالیسی نے
پاکستان کو تنہائی میں دھکیل دیا ہے، انڈیا پاکستان کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا تھا، چائنا کی ہمارے ساتھ شہد سے میٹھی دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہو گئی ہے، اب چین بھی ہم پر اعتماد نہیں کرتا، ہماری معیشت اتنی گر گئی ہے کہ افغانستان کا روپیہ بھی ہم سے بڑھ گیا ہے، سعودی عرب جو پاکستان سے الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، وہ آج ہم سے ناراض ہے، ہم اپنے خطے میں
تنہا ہو گئے ہیں اس حکومت کی یہ کیسی پالیسی ہے، معاشی ترقیوں سے ملک چلتے ہیں اور معاشی ترقی امن و امان میں ہوتی ہے، ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں آئین اور جمہوری نظام کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم نے اپنے ممتاز شخصیات کی قربانی کو فراموش نہیں کیا ہے، ہم نے کہاں کہاں قربانیاں نہیں دی، لیکن پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا نعرہ یہ ہے کہ اس نااہل اور جاہل حکمران کے
رحم و کرم پر پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے ہیں، ہمیں ملک میں ایک جائز اور شرعی تبدیلی چاہئے، ہم پاکستان کو خون میں نہیں نہلانا چاہتے، ہم جانور نہیں ہیں، آپ ہمارے سامنے جو چارہ ڈالیں اور ہم اسے قبول کر لیں، پاکستان کے عوام کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہے، پاکستان اس وقت مضبوط ہو گا جب تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ میں رہ کر کام کریں، فوج ہماری آنکھوں کی پلکوں
جیسی ہے، جو ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، حدود میں رہیں گے تو ہم انہیں سلیوٹ کریں گے، اناڑیوں کو ملک حوالے کرو گے تو یہی حشر ہو گا، یہ جنگ ہم جیت کر رہے ہیں، ہم جمہوریت کے لیے میدان ہیں، ہم اپنا حق لے کر رہیں گے، عوام کا حق لے کر رہیں گے، 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں عظیم الشان اجتماع ہو گا اور ہمارا سفر پورے ملک میں اسی طرح جاری رہے گا۔