اسلام آباد (این این آئی) وفاقی وزراء نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے نوازشریف سمیت اے پی سی کے رہنمائوں کی تقریر کو میڈیا پر چلنے دیا ، پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ نے مولانا فضل الرحمن کی تقریر روک لی ،نوازشریف کا بیانیہ ملک دشمنوں سے مل رہا ہے ،جن انتخابات سے نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے وہ ٹھیک تھے،جن میں کامیاب نہیں ہوئے ان نتائج پر سیخ پا ہیں ،نوازشریف
ایک سیاسی سیٹ اپ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،اگر کوئی کمی بیشی رہ گئی ہے تو اپنے ارکان کے ذریعے انتخابی اصلاحات تجویز کریںسابق وزیر اعظم ہشاش بشاش لگ رہے تھے ،نوازشریف کا پاکستان آنے کا ارادہ ہے یا نہیں ،عمران خان کی پیشنگوئی کے مطابق سب اکٹھے ہوگئے ہیں،جائیدادیں بچانے کے لیے سیاست کو استعمال کیا جارہا ہے،اپوزیشن نے فیٹف کے لیے بلیک میلنگ کرتے ہوئے نیب قانون کے لیے 34 ترامیم تجویز کیں، اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون سے اپوزیشن رہنمائوں کی جائیدادوں کو بھی خطرہ ہے،پاکستان حکومت اور فوج مل کر کام کررہے ہیں ،فیصلے عمران خان کررہے ہیں تاہم اپوزیشن اور پاکستان دشمن عناصر سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام ، سیاسی قیادت اور فوج میں دراڑیں نہیں ڈالی گئیں تو پاکستان کو کامیابی سے نہیں روک سکتے،اپوزیشن کو مشترکہ اجلاس میں جو سبکی ہوئی اس کے ذمہ دار ہم نہیں ،اپوزیشن اپنی صفوں کو ٹٹولے ، اپوزیشن میں کوئی قدر مشترک نہیں ، یہ ساتھ بیٹھ اور چل نہیں سکتے، اتحاد وقتی اور اپنے مقصد کے حصول کیلئے ہے ،مقصد حاصل نہ ہوا تو پھر تتر بتر ہوجائیں گے ،نیب کے حوالے سے نہ سودے بازی کرنی ہے نہ کریں گے۔ پیر کو ان خیالات کااظہار وفاقی وزراء شبلی فراز ،شاہ محمود قریشی ، اسد عمر اور فواد چوہدری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ
مولانا فضل الرحمٰن کی پریس کانفرنس ہم نے نہیں روکی بلکہ اسے خود اے پی سی نے نہیں جانے دیا جبکہ اے پی سی میں نواز شریف نے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا تھا کہ نواز شریف سے لیکر تمام اپوزیشن رہنماوں کی تقاریر کو براہ راست چلنے دیا جائے، جس پر ہم نے ان کی تعمیل کرتے ہوئے نواز شریف، آصف زرداری
اور بلاول بھٹو کی تقریر نشر ہوئی تاہم انہوں نے کہا کہ فضل الرحمن کی تقریر ہم نے نہیں روکی بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے ان کی تقریر نہیں جانے دی، ہم تو اس کے لیے تیار تھے کہ وہ بھی بات کرتے۔انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں نواز شریف نے الیکشن کے عمل کو مشکوک بنانے کی کوشش کی اور اس انتخابات کو دھاندلی زدہ بنانے کی کوشش کی، تاہم حقائق اور تاریخ کچھ اور
بتاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف ملک کے 3 مرتبہ وزیراعظم رہے تب تو وہ الیکشن ٹھیک تھے تاہم شاید انہیں صاف اور شفاف انتخابات کی عدات نہیں ہے اور اس مرتبہ صاف و شفاف الیکشن ہوئے اور اس میں وہ حکومت نہیں بناسکے اور حکومت بنانے جتنی نشستیں حاصل نہیں کرسکے تو اس پر وہ سیخ پا ہیں۔وزیراطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ 2013 کے انتخابات میں ہماری جماعت نے یہ
بات اٹھائی تھی کہ کچھ حلقوں کی دوبارہ گنتی کی جائے اور چار حلقوں کو کھول دیا جائے اگر وہاں نتائج ٹھیک ہوئے تو ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے اور حکومت کو بھی چلنے دیں گے تاہم یہ پوری کوشش پر بھی عدالت عالیہ کے فیصلے پر کمیشن بنایا گیا اور تحقیق ہوئی۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کو متنازع بنانا ان کا وتیرہ دیکھا ہے، چیزیں ان کی منشا کے مطابق ہو تو ٹھیک ہے، عدالت ان
کے حق میں فیصلہ دے تو ٹھیک ہے ان کے خلاف دے تو ٹھیک نہیں ہے، جس انتخابات میں ان کی کامیابی ہو وہ ٹھیک ہے جس میں نہ ہو تو وہ ٹھیک نہیں ہے، اس قسم کی الجھن پھیلانا اور حقائق جانتے ہوئے چیزوں کو متنازع بنانے سے وہ نہ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں نہ ہی جمہوریت کی، اس سے وہ ایک سیاسی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو وہ خود اپناتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں اور کوئی اعتراضات تھے تو ان کے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیز میں بھی موجود ہیں تو پھر یہ انتخابی اصلاحات کیوں نہیں کرتے، انہیں کی حکومت میں انتخابی اصلاحات ہوئی تھیں اگر انہیں اعتراض تھا تو اس میں شامل کردیتے تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا اصل مقصد یہ ہے ہی نہیں، وہ تو ایسی تجاویز دیں گے جس سے اس موجودہ نظام میں ان کو نقصان
ہو، تاہم اس انتخابات اور جمہوریت کو آپ متنازع نہ بنائیں، اس ملک نے آپ پر بہت احسانات کیے ہیں۔نواز شریف سے متعلق انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز آپ سب نے دیکھا ہوگا کہ نواز شریف بڑے توانا، تندرست، ہشاش بشاش لگ رہے تھے، آیا ان کا پاکستان آنے کا ارادہ ہے یا نہیں، آیا وہ ابھی بھی اس بات پر قائم ہیں کہ وہ بیمار ہیں، یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات انہوں نے دینے ہوں گے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی صحت کی بات کریں تو وہ فواد چوہدری سے کم صحت مند نہیں لگ رہے تھے، اللہ انہیں اسی طرح تندرست رکھے۔نواز شریف کے خطاب پر جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ وزیراعظم نے حکومت بننے کے بعد پہلی یا دوسری تقریر میں کہا تھا کہ اس اپوزیشن کی صرف سیاست داو پر
نہیں لگی ہوئی بلکہ گزشتہ 20 سے 30 سال میں کرپشن کے پیسوں سے بنائی ہوئی جائیدادیں داو پر لگی ہوئی ہیں اور جب احتساب کا عمل آگے بڑھے گا تو انہوں نے مل جانا ہے اور سب نے وہ مناظر دیکھے۔اسد عمر نے کہا کہ ہماری حکومت جب آئی تو عمران خان نے گزشتہ عرصے سے جو باریاں چل رہی تھیں انہیں توڑ دیا، شروع میں اپوزیشن کی امید تھی کہ معاشی بحران کو ہم پیدا کرکے
گئے ہیں اسے کے ملبے تلے حکومت نے دب جانا ہے اور انہوں نے خود ہی کچھ عرصے میں چلے جانا ہے، تاہم عمران خان نے اس بحران سے نمٹنے کیلئے جستجو کی اور ہم اس سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد دھرنا آگیا، جس میں انہوں نے کہا کہ حکومت گرے گی اور سارا پاکستان ہمارے ساتھ ہے تاہم جب وہ جہاں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ تو صرف
2 فیصد لوگ ہیں، آخر کار انہیں یہاں سے پسپائی کرنا پڑی اور یہ ناکام ہوگئے۔اسد عمر نے کہا کہ اس کے بعد عالمی بحران کورونا وائرس آگیا اور دنیا کی معیشت اور صحت کے نظام ہل کر رہ گئے، شروع کے دن میں یہاں ان رہنماوں میں بڑا جوش نظر آتا تھا، کچھ تو لندن سے بھاگے بھاگے واپس بھی آگئے اس امید کہ تحت کہ پاکستان میں تباہی آئیگی تو اس کو بنیاد بنا کر ہم حکومت کو ختم کریں
گے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز کی تقاریر میں سب باتیں ہوئی تاہم کورونا وائرس پر کوئی بات نہیں کی گئی تاہم اللہ نے ہمیں کورونا پر کامیابی دی اور وزیراعظم عمران خان کے واضح موقف تھا جسے آج دنیا مان رہی ہے اور پاکستان کی مثالیں دی جارہی ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اپوزیشن کے ہاتھ سے یہ موقع بھی جب نکل گیا تو اس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے قوانین کا معاملہ آیا، تاہم اس سے
زیادہ شرمندگی کی کیا بات ہوگی اور ان کی بے چینی کس حد تک پہنچ گئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے قوانین جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں بلکہ صرف پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانے کیلئے ہیں ان قوانین پر بھی انہوں نے بھرپور مخالفت کی۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے سوچا کہ اس سے بہتر موقع این آر او کا موقع نہیں ہوسکتا، اپوزیشن جو کہتی تھی
این ا?ٓ او نہیں مانگیں گے اور کونسا این آر او، انہوں نے نیب قوانین میں 34 ترامیم کی صورت میں سامنے رکھ دیں اور بلیک میلنگ کی کہ یہ کرو گے تو ہم ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں جانے سے بچائیں گے لیکن اس پر بھی انہیں پے درپے شکست ہوتی رہی اور صورتحال یہ نظر آئی کہ ان سے اپنے اراکین ہی نہیں سنبھالے جارہے۔انہوں نے کہا کہ دوسرا یہ کہ جو انسداد منی
لانڈرنگ قانون پاس ہوا اس سے ان کو اپنی منی لانڈرنگ کی گئی جائیدادوں کو خطرہ ہے جبھی یہ اتنے ہیجانی صورتحال میں ہیں اور چاروں طرف ہاتھ مارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ساتھ دنیا کی وہ قوتیں جو پاکستان کے خلاف ہیں اور اس سے دشمنی رکھتی ہیں ان کے لیے بھی ایک خطرناک صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے کیونکہ
بھارت اور ایسے دیگر ممالک جو پاکستان سے مخامست رکھتے ہیں انہوں نے کہاں پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ فاٹا وہ علاقہ ہے جہاں پریشانی پیدا کرنے کی کوشش کی، یہ علاقہ بہت بڑا چیلنج ہوا کرتا تھا، ہماری فوج نے آپریشن کیا اور سیاسی طور پر اس علاقے کو پاکستان کا حصہ بنایا گیا، انضمام بل منظور کیا گیا وہاں ترقی کا عمل شروع ہوا اور وہاں جس طریقے کی
ہم دہشتگردی کی وارداتیں دیکھتے تھے اس میں تبدیلی آئی۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ اس کے علاوہ کراچی جسے 20 سے 25 برسوں سے استعمال کیا گیاتاہم وہاں کی سیاسی و سیکیورٹی صورتحال بہتر ہوئی اور اب وہاں ایک بہت بڑا ترقیاتی پیکج بنایا گیا، اس کے علاوہ بلوچستان جہاں پاکستان مخالف قوتوں کا زور ہے وہاں کیلئے بھی وزیراعظم نے خصوصی پیکج کا کہا ہے جس کا اعلان
بھی کردیا جائے گا۔افغانستان سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہاں نہ صرف امن کی امید نظر آرہی بلکہ اس طریقے سے نظر آرہی ہے جس کی بات عمران خان شروع سے کرتے آرہے تھے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی قوتوں اور ہمارے دشمنوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ پاکستان اس راستے پر نکل گیا ہے کہ اگر اسے روکا نہیں گیا یا اس کے لیے رکاوٹیں نہیں پیدا کی گئیں تو پاکستان کو
پکڑنا مشکل ہوجائے گا۔اسد عمر نے کہا کہ گزشتہ روز ہونے والی تقاریر خاص طور پر نواز شریف کی تقاریر پر سب سے زیادہ خوشی بھارت میں دکھائی دی اور وہاں کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ نواز شریف کی سیاسی واپسی ہوگئی اور یہ واپسی ایسے ہوگئی کہ انہوں نے پاکستانی کی فوج پر حملہ کردیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے جن کامیابیوں کو حاصل کرنے کی بات کی وہ اس طرح ہورہی ہیں کہ
پاکستان میں اس وقت ایک حکومت اور جمہوری نظام کام کر رہا ہے جہاں فوج اور سول قیادت مل کر ملک کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے نہیں دیکھا جارہا، جہاں سویلین حکومت ہرناکامی کی وجہ یہ نہیں بتارہی کہ ہمیں فوج کام نہیں کرنے دے رہی، چاہے کووڈ 19 کا مقابلہ ہوگا، ٹڈی دل کا معاملہ ہو، کراچی یا بلوچستان کا معاملہ ہو، فوج اور
سویلین حکومت مل کر کام کر رہی ہیں، اس میں دو رائے نہیں کہ قیادت عمران خان کے پاس ہے اور فیصلے عمران خان کرتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ ساڑھے آٹھ ماہ میں پاک فوج کے 150 جوان شہید ہوئے ہیں ،اس فوج پر حملہ کیا جارہا ہے ،نوازشریف کا بیانیہ کس سے مل رہا آپ کے سامنے ہے،اگر ادارہ نوازشریف کے مکمل قابو میں نہیں تو اس سے ان کی جنگ ہوتی ہے ،آج فوج نوازشریف
کے قابو میں نہیں ہے ،نوازشریف کے جہاز میں بیٹھنے پر ہی معلوم ہوگیا تھا کہ وہ کتنے بیمار ہوئے ،نوازشریف نے کہا کہ کبھی کوئی شفاف الیکشن نہیں ہوا ،کیا تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے نوازشریف اعتراف جرم کررہے ہیں ،اپنے لگائے ہوئے چیئرمین نیب پر نوازشریف نے اعتراضات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اور پاکستان کے دشمن عناصر سمجھتے ہیں کہ اس نظام کو اگر چھیڑا
نہیں گیا یا اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تو، اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوج میں دراڑیں نہیں پیدا کی گئی اور ایسا کرنے میں وہ ناکام رہے تو پاکستان کو کامیابی سے نہیں روک سکتے۔فواد چوہدری نے کہاکہ عدالتی فیصلوں کا خیال رکھتے تو نوازشریف کا خطاب دکھانا غیر قانونی ہو جاتا ،وزارت اطلاعات نے نئی روائت قائم کی ،گزشتہ روز ابو بچائو کانفرنس ختم ہوئی۔ انہوںنے کہاکہ نواز شریف
کس منہ سے عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے تھے ،اب جھگڑا یہ ہے کہ مریم نواز کو لندن بھیج دیا جائے ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں جمہوریت اور عدلیہ کیخلاف جتنی سازشیں ہوئی ہیں مسلم لیگ ن اس کا لازم حصہ رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اے پی سی میں مایوسی اور ناامیدی کی گردان تھی ،اے پی سی تضادات کا مجموعہ تھی ۔ انہوںنے کہاکہ اے پی سی میں پر اس ادارے
کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس نے پاکستان کی سلامتی کے لیے اپنا خون دیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ کرونا کے چیلنج کے باوجود معاشی اعشاریے بہتر ہونا شروع ہوگئے ہیں ،کرونا کے کیسز پھر بڑھنے شروع ہوگئے ہیں ،سخت لاک ڈائون کا مطالبہ کرنے والے اب جلسے جلوسوں کی بات کررہے ہیں ،اپوزیشن کو یقین تھا کہ فیٹف قانون سازی کے لیے حکومت کو ہمارے پاس آنا پڑے گا ،اپوزیشن کو
مشترکہ اجلاس میں جو سبکی ہوئی اس کے ذمہ دار ہم نہیں ،اپوزیشن اپنی صفوں کو ٹٹولے ، این آر او سے ان کی مراد نیب کو لپیٹنا تھا۔ انہوںنے کہاکہ چین نے موجودہ حکومت کے ساتھ سی پیک فیز ٹو کا معاہدہ کیا ہے ،سی پیک رول بیک نہیں رول آن ہورہا ہے ،ان کو جمہوریت کا درد نہیں درد کوئی اور ہے ،ان کو ملک کا نہیں اپنی ذات کا درد ہے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ نوازشریف کو واپس لانا
ہماری ذمہ داری ہے تو کیا واپس آنا نوازشریف کی اخلاقی ذمہ داری نہیں ،کیا نوازشریف اپنے قول کے پابند نہیں ،کیا نوازشریف کو اخلاقی طور پر واپس نہیں آنا چاہیے ،ابھی لانگ مارچ کا اعلان جنوری میں ہے وہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی بھی کر لیتے ہیں ،ہم ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں چور دروازوں سے نہیں آئے ۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف نے ایک کروڑ ستر لاکھ لوگوںکی توہین کی
ہے جن کے ووٹوں سے ہم اقتدار میں آئے۔ عسکری قیادت سے پارلیمانی رہنمائوں کی ملاقات سے متعلق صحافی کے سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ بہت سے پردہ نشین ہیں ان کو بے نقاب نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ اسد عمر نے کہاکہ میں عاصم باجوہ سے بہت متاثر ہوگیا ہوں ، مجھے کل معلوم ہوا کہ وہ بہت بڑی بلا ہیں۔و زیرخارجہ نے کہاکہ اپوزیشن میں کوئی قدر مشترک نہیں ، ان کا کوئی
نظریاتی اتحاد نہیں ،یہ ساتھ بیٹھ اور چل نہیں سکتے، ان کا اتحاد وقتی اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہے ،مقصد حاصل نہ ہوا تو یہ پھر تتر بتر ہوجائیں گے ،ان کی گفتگو اور ہے اور عمل اور ہے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ
وقت بتائے گا کہ انہوں نے اے پی سی سے کیا حاصل کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ انہوں نے فوج عدلیہ ، الیکشن کمیشن اور نیب کو تنقید کا نشانہ بنایاہم نے نیب کے حوالے سے نہ سودے بازی کرنی ہے نہ کریں گے۔