منگل‬‮ ، 18 مارچ‬‮ 2025 

90سال سے قید قبر وہ رہنما جن کی قبر کو بھی برطانوی سرکار نے قید میں رکھا‎

datetime 25  اگست‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)خیبر پختونخوا میں برطانوی راج کے دوران 1930 میں تین بڑے واقعے پیش آئے جو چند ماہ کے وقفے سے پیش آئے۔ ان میں ایک پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی میں پیش آیا تھا جبکہ ضلع مردان کے علاقے ٹکر میں اسی طرح کے واقعے میں متعدد افراد کو مارر دیا گیا تھا۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ

خیبر پختونخوا میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر اسفندیار درانی نے برطانوی دور میں مزاحمتی تحریکوں پر تحقیق کی ہے۔انھوں نے بتایا کہ سپینہ تنگی واقعہ ان تحریکوں کا ہی ایک حصہ تھی جو برطانوی راج کے خلاف شروع کی گئی تھیں اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے مختلف علاقوں سے یہ تحریکیں 1929 کے بعد شروع ہو گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ قصہ خوانی کے واقعہ کے بعد خدائی خدمتگار تحریک کی جانب سے مزاحمت کی گئی اور ان کی حمایت میں پشاور شہر میں فرنٹیئر کانگریس کمیٹی، فرنٹیئر خلافت کمیٹی اور نوجوان بھارت سبھا کے ذیلی تنظیم نوجوانان سرحد کے لوگ شامل تھے۔مذکورہ دن بنوں کے قریب سپینہ تنگی میں بڑی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔مظاہروں کا یہ سلسلہ صوبے کے مختلف علاقوں میں جاری تھا اور لوگ خدائی خدمتگار تحریک کے بینر تلے احتجاج کرہے تھے۔سپینہ تنگی سے پہلے کرک میں ایک مظاہرہ کیا گیا اور اس کے بعد سپینہ تنگی میں 24 اگست کو مظاہرے کا اعلان کیا گیا تھا۔انگریز سرکار کی جانب سے ان مظاہروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس احتجاج کی قیات مقامی رہنما قاضی فضل قادر کر رہے تھے۔ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے عبدالناصر خان نے بتایا کہ سپینہ تنگی سے پہلے اس علاقے کے

دیگر مقامات پر بھی جلسے منعقد کیے گئے تھے اور وہ سب پر امن رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ سپینہ تنگی میں بھی لوگ پر امن تھے اور ان سے اسلحہ مقامی انتظامیہ نے لے لیا تھا۔قاضی فضل قادر اس علاقے کی ایک معروف شخصیت تھے اور ان کے پیروکار صرف بنوں ہی نہیں قریبی علاقوں میں بھی تھے۔مظاہرے کے دوران انگریز کیپٹن ایشرافٹ وہاں پہنچے اور سٹیج پر انھوں نے قاضی فضل قادر سے بات چیت شروع کی۔

جس سے دونوں میں تلخ کلامی ہوئی اور کیپٹن ایشرافٹ نے ان پر فائر کردیا۔کہا جاتا ہے کہ ایک نوجوان احمد خان چندن وہاں موجود تھے اور ان کے پاس درانتی تھی، جس سے انھوں نے انگریز کیپٹن پر حملہ کیا تھا، جس کے بعد سرکار کی جانب سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔اس کے بعد وہاں موجود لوگ اشتعال میں آئے لیکن لوگوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اس لیے سرکار کا کوئی نقصان اس وقت نہیں ہوا تھا۔قاضی فضل قادر کو زخمی حالت میں گھسیٹ کر لے جایا گیا اور ڈومیل پولیس تھانے میں وہ دم توڑ گئے تھے۔

مگر برطانوی اہلکار اتنے غصے تھے کہ ان کی میت ورثا کے حوالے نہیں کی گئی بلکہ جیل کے اندر انھیں دفن کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد ان پر مقدمہ چلایا گیا اور انھیں قید کی سزا سنائی گئی۔ مرنے کے بعد کسی کو قید کی سزا سنانے کا یہ انوکھا واقعہ تھا۔عبدالناصر خان نے بتایا کہ اس سزا پر عمل درآمد کے لیے ان کی قبر جیل کے اندر بنائی گئی۔اس بارے میں ایک اطلاع یہ ہے کہ یہ قبر جیل میں چکی کے اندر بنائی گئی اور اس کے ارد گرد زنجیریں لگائی گئی تھیں تاکہ یہ ظاہر ہو کہ یہ قیدی ہے۔سینٹرل جیل بنوں شہر کے اندر واقع ہے اور اس کی عمارت بھی بہت قدیم تھی جس کے بعد جمعیت علما اسلام سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا اکرم خان درانی کے دور میں 2004 میں بنوں جیل کی نئی عمارت تعمیر کی گئی تھی۔پرانی جیل منہدم کرکے وہاں اب قاضی فضل قادر پارک بنا دیا گیا ہے اور ان کی قبر کو ماربل سے پختہ کیا گیا ہے، لیکن قبر کے گرد زنجیریں اب بھی موجود ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)


قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس…

تیسری عالمی جنگ تیار

سرونٹ آف دی پیپل کا پہلا سیزن 2015ء میں یوکرائن…

آپ کی تھوڑی سی مہربانی

اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں…

وزیراعظم

میں نے زندگی میں اس سے مہنگا کپڑا نہیں دیکھا تھا‘…

نارمل ملک

حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ…

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…