اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی اور کالم نگار مظہر عباس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ عمران کا شمار دنیا کے تین بڑے آل رائونڈر میں ہوتا تھا۔ اب تو وہ سیاست میں بھی مولانا کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔عمران کو تمام بڑے سیاستدان برسوں رد کرتے رہے۔ ایک بار بینظیر بھٹو مرحومہ جو عمران کو زمانہ طالب علمی سے جانتی تھیں مجھ سے کہنے لگیں مظہر، تم عمران کو کتنا جانتے ہو۔
کیا وہ سیاست میں کامیاب ہوگا؟۔ میں نے جواب دیا ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ وہ محنتی بہت ہے۔ آپ لوگوں کی خراب کارکردگی اس کی کامیابی بن سکتی ہے۔ وہ متبادل کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ یہ بات 1998کی ہے جب تحریک انصاف کو 1997کے الیکشن میں ایک نشست بھی حاصل نہیں ہو سکی تھی۔مولانا فضل الرحمن کی کہانی ذرا مختلف ہے،اگر چل کر مظہر عباس لکھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن جو ایک مدرسہ کی پیداوار تھے کسی آمر کی نہیں جیسا کہ عام طور پر ہمارے رہنما رہے ہیں، کا سیاسی سفر 1980کے آخر میں شروع ہوا جب جمعیت علمائے اسلام 1981میں تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی کا حصہ بنی تو مولانا کی سیاسی عمر صرف ایک سال تھی مگر بہت جلد انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی رنگ میں مکمل رنگ دیا۔ 1983کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا، گرفتاری دی۔مولانا بیگم نصرت بھٹو کی بہادری کے بڑے قائل تھے۔ ایم آر ڈی بنانا آسان نہ تھا۔ ان کے لئے بڑا مشکل تھا ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنا جنہوں نے بھٹو کی پھانسی میں کردار ادا کیا۔ جب کوئی باہر نکلنے کو تیارنہ تھا تو وہ باہر نکلیں۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو نے جس طرح آمریت کا مقابلہ کیا وہ بقول مولانا، بڑے بڑے سیاست دانوں کو پیچھے چھوڑ گئیں۔1988کے انتخابات بعد مولانا کی جماعت کے سامنے بڑا سوال یہ تھا کہ عورت کی حکمرانی قابلِ قبول ہے کہ نہیں۔
جمعیت کے بیشتر اکابرین کا خیال تھا کہ ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہئے، شوریٰ میں گرما گرم بحث ہوئی۔ بقول قاری شیر افضل میں نے جب یہ کہا کہ عورت کی حکمرانی بہرحال آمر کی حکمرانی سے بہتر ہے تو سب نے مجھے پی پی پی کا ایجنٹ قرار دیا مگر امیر کو یہ بات اچھی لگی اور فیصلہ ہوا کہ وہ مقبول لیڈر ہے اور لوگوں نے منتخب کیا ہے لہذا ہمیں احترام کرنا چاہئے۔مشرف دور میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل وجود میں آیا اور افغانستان پر اکتوبر 2001میں امریکی حملے کے بعد امریکہ مخالف جذبات کے ابھرنے کا بھرپور فائدہ ایم ایم اے کو ہوا جس نے 2002 میں کے پی میں حکومت بنائی اور بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ بنی۔
مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بن گئے۔ کراچی میں بھی ایم ایم اے کو چھ نشستیں حاصل ہوئیں۔ مشرف نے مولانا کو مذاکرات کی دعوت دی اور ایم ایم اے اور مشرف میں لیگل فریم ورک آرڈر کے نام سے اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ ایم ایم اے مشرف کو قانونی و سیاسی تحفظ دے گی اور مشرف دسمبر 2004میں آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں گے مگر انہوں نے بعد میں عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔مولانا دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کو قابل قبول ہو جاتے ہیں۔ کہاں MRDاور کہاں MMA۔ کہاں بینظیر سے اتحاد اور قاضی حسین احمد مرحوم۔ ایک طرف اسفندر یار ولی سے دوستی تو دوسری طرف افغان طالبان۔
مگر عمران کے معاملے میں مولانا سمجھ ہی نہیں سکے کہ یہ 2013اور 2018میں یہ عمرانی انقلاب نے سرخ و سبز دونوں کا صفایا کیسے کردیا۔ کرکٹ کا بہرحال اس میں عمل دخل خاصا ہے۔ پچھلے 20برسوں میں کرکٹ کے جنون نے مدرسوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔مولانا سیاست اور مذہبی کارڈ کے پرانے کھلاڑی ہیں مگر کپتان کے سیاست میں آنے سے عمران نے کرکٹ کارڈ کا اضافی استعمال کرکے لوگوں کو متوجہ کیا۔ اب اس کے ساتھ مذہبی کارڈ ریاست مدینہ کے دعویٰ کی شکل میں بھی ہے، جنگ اور آپریشن مخالف ہونے کی وجہ سے کے پی اور سابق فاٹا میں مقبول بھی ہے اور کرپشن مخالف بیانیہ کی وجہ سے سیاسی کارڈ بھی اسی کے پاس ہے۔ حکومت چلے نہ چلے، ATMکارڈ بھلے ناکارہ ہوجائے مگر عمران نے مولانا کو اپنے ایک جونیئر سے 2018میں شکست دلوا کر حیران و پریشان کردیا ہے۔مولانا کے سامنے آج پہلی بار کھلاڑی تگڑاہے لیکن ان کی ٹیم منتشر ہے اور امپائر بھی عمران کو جلد آئوٹ کرنے کے موڈ میں نہیں لگتے۔